پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سفارش پر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر دیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ سے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدے سے متعلق رائے لی جائے گی۔ تاہم پاکستان میں یہ بات موضوع بحث ہے کہ آخر حکومت کو اس حوالے سے ریفرنس بھجوانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ایک دہائی تک جاری رہنے والی طویل قانونی جنگ کے بعد پاکستان نے رواں سال مارچ میں 'بیرک گولڈ' کمپنی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر پر کام کرنے والی کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ نے رواں برس جولائی میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس معاہدے کی توثیق کرے۔
صدارتی ریفرنس سے متعلق ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کی تجویز پر ریکوڈک پراجیکٹ پر ریفرنس دائر کرنے کی سمری کی منظوری دی ہے۔
بیان کے مطابق 30 ستمبر کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں وزارتِ قانون و انصاف کی سفارش پر ریکوڈک کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ماضی میں کیے گئے فیصلے کے حوالے سے وضاحتی ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
اس ریفرنس میں بیرونی سرمایہ کاری تحفظ اور فروغ بل 2022 کی منظوری کے حوالے سے بھی وضاحت طلب کی گئی ہے۔
عدالت کے باہر ہونے والےا س معاہدے کے تحت عالمی بینک کی ثالثی عدالت کی طرف سے پاکستان پر عائد ہونے والے 11 ارب ڈالرکا جرمانہ ختم کر دیا گیا تھا۔
بیرک گولڈ نے اپنے دیگر شراکت دوراں کے ساتھ مل کر ریکوڈک منصوبے میں دوبارہ بھاری سرمایہ کاری کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔
اس ریفرنس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوانے کی سب سے بڑی وجہ ماضی میں اس عدالت کی طرف سے کیے گئے معاہدے کو کالعدم قرار دیا جا رہا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے معاہدے کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 2013 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
ماہرین کے مطابق کمپنی مستقبل میں کسی بھی قانونی کارروائی اور ماضی میں کیے گئے فیصلے کو بنیاد بنا کر دوبارہ اس معاہدے کو ختم کرنے کے حوالے سے تمام شکوک و شبہات ختم کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی منظوری چاہتی ہے۔
جولائی میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بیرک گولڈ کارپوریشن کے صدر اور چیف ایگزیکٹو افسر مارک بیرسٹو نے کہا تھا کہ معاہدے کی پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا جائزہ لے اور پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے اس کی توثیق کرے۔
ماہرین کے مطابق حکومت سپریم کورٹ میں اس ریفرنس کے ذریعے عدالتی منظوری اور وضاحت چاہ رہی ہے تاکہ مستقبل میں کسی اعتراض کی صورت میں جسٹس افتخار چوہدری کے کیے گئے فیصلہ کو بنیاد بنا کر کوئی کارروائی نہ ہوسکے۔
'پرانے فیصلے سے بچنے کے لیے ریفرنس دائر ہو رہا ہے'
اس کیس میں بلوچستان حکومت کی طرف سے بطور ایڈووکیٹ جنرل نمائندگی کرنے والے وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے اور اس پر نظرِ ثانی بھی نہیں ہو سکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اب حکومت اسی کمپنی کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کر رہی ہے جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ لہذٰا حکومت نے اس فیصلے اثرات سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوایا ہے۔
امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ اب بلوچستان حکومت بھی اس کیس میں وفاق کے ساتھ ہے تو وہ بطور عام شہری اس ریفرنس میں فریق بنیں گے اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوں گے۔
اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ کمپنی ایک بہت بڑا' فراڈ 'ہے جو بلوچستان کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہے جو بلوچ وسائل پر قبضہ کرے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس کیس میں بلوچستان کا مقدمہ لڑیں گے اور اس معاہدے کے حوالے سے سپریم کورٹ کو حقائق سے آگاہ کریں گے۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتی رہی ہے کہ ان وسائل کے استعمال سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔
پاکستان اور بیرک گولڈ کے معاہدے میں مزید کیا ہے؟
رواں سال 21مارچ 2022 کو پاکستان نے بیرک گولڈ کارپوریشن کے ساتھ عدالت سے باہر ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کمپنی نے پاکستان پر عائد 11 ارب ڈالر جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست 2022 سے اس پراجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس منصوبے سے متعلق جاری معلومات کے مطابق اس منصوبے کے منافع میں سے بیرک گولڈ 50 فی صد، پاکستان کی وفاقی حکومت کے ادارے 25 فی صد، اور بلوچستان حکومت 25 فی صد حصے کے حق دار ہوں گے۔
سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کا فیصلہ کیا تھا؟
سات جنوری 2013 کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور دیگر معدنیات کی تلاش کے لیے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ 1993 کے ’ریکوڈک‘ معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے مقام میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے اس منصوبے کو ’ریکوڈک معاہدے‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اس مقدمہ کی طویل سماعت کے بعد دسمبر 2012 میں فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا جس کے بعد سات جنوری 2013 کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں حکومت پاکستان اور ایک غیر ملکی کمپنی کے درمیان اس معاہدے کو قواعد و ضوابط سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کے تحت معدنیات کی تلاش کا کام غیر قانونی ہے۔
ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا کام کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کے اتحاد ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006 میں شروع کیا تھا۔
کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا، تاہم مقامی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ اندازہ درست نہیں، کیوں کہ اُن کے بقول علاقے میں ایک ہزار ارب ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاکستان کے ایک نام ور جوہری سائنسدان اور سرکاری منصوبہ بندی کمیشن کے رکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے اسے اس کام کے لیے بیرونی کمپنیوں کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔
پاکستان میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چاغی کے دور افتادہ علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر سے مؤثر انداز میں استفادہ کیا جائے تو اس سے نہ صرف اپنے قرضے اُتار سکتا ہے، بلکہ اس سے بلوچستان کے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔