پاکستان اور افغانستان کے مابین بلوچستان میں چمن سرحد ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے آٹھ دن کے بعد کھول دی گئی ہے۔ سرحد گزشتہ اتوار کو فائرنگ کے واقعے میں ایک پاکستانی اہلکار کی ہلاکت کے بعد بند کر دی گئی تھی۔
پیر کی صبح پاکستان اور افغانستان کے حکام نے چمن سرحد پر بابِ دوستی کو مسافروں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان میں آٹھ روز سے پھنسے ایک افغان شہری عبد الظاہر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ علاج کے سلسلے میں کوئٹہ آئے تھے۔ گزشتہ ہفتے جب وہ واپس لوٹنے بابِ دوستی پہنچے تو نا خوشگوار واقعہ پیش آیا۔
انہوں نے بتایا کہ فائرنگ سے فرنٹیئر کور (ایف سی) کا ایک اہلکار ہلاک ہوا تھا جس کے بعد پاکستان نے سرحد کو ہرقسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا۔جب بھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو سرحد بند کر دی جاتی ہے، جس سے مسافروں بالخصوص مریضوں اور خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عبد الظاہر نے بتایا کہ سرحد بند ہونے کی وجہ سے وہ چمن میں ایک ہوٹل میں رکے تھے، مگر بعد میں پیسے ختم ہونے کی وجہ سے انہوں ںے چمن میں ایک مسجد میں پناہ لی۔
چمن میں باب دوستی پر سرحد کے دونوں جانب سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ چمن میں ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے پر پاکستانی حکام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اہلکار نے بتایا کہ چمن اور باب دوستی پر سیکیورٹی کے انتظامات کو ایف سی نے مزید سخت کر دیا ہے۔ پاکستان سے افغانستان جانے والوں اور وہاں سے آنے والوں کی چیکنگ کی جا رہی ہے۔
چمن کے سرحدی علاقے میں رواں ماہ 13 نومبر کو افغانستان سے ایک شخص نے پاکستان کی جانب فائرنگ کی تھی جس سے فرنٹئیر کور (ایف سی) کا ایک اہلکار ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے تھے۔
سرحد پر فائرنگ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے، سرحد پر اچانک فائرنگ ہوتی ہے جس کے بعد افراتفری پھیل گئی تھی۔
واقعے کے بعد چمن کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) عبدالحمید زہری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک افغان حکام ملزم کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے نہیں کرتے، اس وقت تک سرحد بند رہے گی۔
ڈی سی کے مطابق دونوں ممالک کے حکام میں ملاقات کے بعد سرحد پیدل آمد و رفت کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ پیر سے سرحد کو تجارتی اور دیگر گاڑیوں کے لیے کھولنے پر اتفاق ہوا تھا۔
اس پیش رفت اور فیصلے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پاکستان کسٹمز کے امیگریشن دفاتر بھی کھول دیے گئے ہیں۔
پاکستانی حکام سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کے حکام کی ملاقات میں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے نمائندوں نے دہشت گردی اور دونوں ممالک کے درمیان حالات خراب کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرکے سخت سزا دینے کی یقین دہانی کرائی۔
ادھر پاکستانی حکام نے بتایا ہے کہ پاکستان۔ افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی بحال کر دی گئی ہے۔
پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند پاکستان کی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔پاکستان، طالبان حکام پر زور دیتا رہا ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے۔
سوشل میڈیا پر زیرِ گردش اطلاعات کے مطابق طالبان نے چمن سرحد پر فائرنگ میں ملوث ملزم پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا ہے البتہ پاکستانی حکام نے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا جب کہ طالبان نے بھی ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی۔
افغانستان کے صوبہ قندھار کے گورنر کے ترجمان حاجی زید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام میں جاری مذاکرات کے دوران یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اس واقعے میں ملوث شخص کا افغان طالبان سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پر فائرنگ کے اس واقعے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان حالات خراب کرنا تھا۔
حاجی زید نے بھی اس بات کی تصدیق نہیں کہ اب تک کسی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے یا پاکستان کے حوالے کیا گیا ہے۔
چمن سرحد سے دونوں جانب یومیہ 15 سے 20 ہزار افراد سفر کرتے ہیں جب کہ پاکستان۔ افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت سینکڑوں مال بردار گاڑیوں کی بھی آمد و رفت ہوتی ہے۔