پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے باعث صحتِ عامّہ کے اداروں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کرونا کی شدت میں اضافے کے اثرات سرکاری اور نجی اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمی کی صورت میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کُل 11 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ ان اسپتالوں کے انتہائی نگہداشت وارڈز میں وینٹی لیٹرز کے ساتھ مجموعی طور پر 118 بستر موجود ہیں جن میں سے صرف 14 بستر ہی خالی بچے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں ہی کرونا کے مریضوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جو پاکستان کے کسی بھی شہر میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کراچی میں کووِڈ 19 سے 323 اموات بھی ہوئی ہیں جب کہ آٹھ ہزار کے لگ بھگ لوگ اس بیماری سے صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔
جمعرات کو 31سندھ میں ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں جو اب تک ایک دن میں کرونا سے ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں بھی ایک ہی دن میں 57 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں جو کہ 24 گھنٹوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
البتہ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر ڈویژنز میں صورتِ حال بہتر ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں 22 سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی گئی ہے جن میں وینٹی لیٹرز کے ساتھ بستروں کی مجموعی تعداد 211 بتائی جاتی ہے۔
جمعرات کو ان 211 بیڈز میں سے 112 پر مریض موجود ہیں جب کہ 99 بستر خالی ہیں۔ لیکن حکام کو خدشہ ہے کہ اگر وائرس کا پھیلاؤ اسی رفتار سے جاری رہا تو آئندہ کچھ دنوں میں یہ بستر مکمل طور پر بھر سکتے ہیں۔
اسی طرح صوبے بھر میں ہائی ڈیپینڈینسی یونٹس میں موجود 274 بستروں میں سے 172 پر مریض موجود ہیں جب کہ 102 بستر فی الوقت دستیاب ہیں۔
اسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کو آئسولیشن میں رکھنے کے لیے مختص 1179 بستروں میں سے 1016 بستر خالی ہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر مریضوں کو گھروں ہی میں آئسولیشن کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
اس صورتِ حال کے بارے میں کراچی کے سب سے بڑے نجی اسپتال آغا خان یونیورسٹی اسپتال کی میڈیا کوآرڈینیٹر معصومہ رضا نے کہا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسپتال میں کرونا کے مریضوں کا دباؤ بڑھنے سے صورتِ حال کو کنٹرول کرنا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال میں کوشش کی جا رہی ہے کہ جس قدر ممکن ہو، کرونا وائرس کے مریضوں کو اسپتالوں میں رکھا جائے۔ لیکن بسا اوقات ان کے لیے مختص بستر خالی نہ ہونے کے باعث یہ ممکن نہیں ہو پاتا۔ کیوں کہ اسپتال کے ایمرجنسی رسپانس ڈپارٹمنٹ کو دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کا بھی فوری علاج کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں مریضوں کو ان کی اپنی حفاظت کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دوسرے اسپتال شفٹ ہو جائیں۔
معصومہ رضا کے مطابق آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں دیگر امراض کے مریضوں کے لیے قائم ایمرجنسی ریسپانس ڈپارٹمنٹ بدستور اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے۔
دوسری جانب سندھ حکومت نے شہر میں زیرِ تعمیر ایک اسپتال کو فوری طور پر مکمل کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ 200 بستروں پر مشتمل یہ اسپتال وبائی امراض کی روک تھام کے لیے مختص ہو گا۔
اس اسپتال کو فی الوقت صرف کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال اور انہیں آئسولیٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا جس کے لیے ایک ارب روپے کی رقم خرچ کر کے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل کراچی کے ایکسپو سینٹر میں بھی 600 بستروں کا ایک فیلڈ اسپتال قائم کیا گیا تھا جہاں کرونا کے مریضوں کو آئسولیٹ کرنے کی سہولت موجود ہے جب کہ صوبے کے ہر ڈویژن میں ایک فیلڈ آئسولیشن سینٹر قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ادھر سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضٰی وہاب نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر حکومت ہر مریض کو زبردستی اسپتال منتقل کر دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض عناصر کی طرف سے یہ غلط تاثر پھیلایا جا رہا ہے جب کہ کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں بھی اگر مریض میں علامات موجود نہ ہوں تو وہ خود کو اپنے گھر میں ہی آئسولیٹ کر سکتا ہے۔
اپنے بیان میں بیرسٹر مرتضٰی وہاب نے مزید کہا کہ ایسے لوگوں کو اے کیٹیگری میں رکھا گیا ہے اور اس حوالے سے صوبائی حکومت نے ایس او پیز بھی جاری کی ہوئی ہیں۔ ترجمان سندھ حکومت کے مطابق اس تاثر کو زائل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ شہری بلا خوف اپنا کرونا ٹیسٹ کرائیں۔