پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماضی میں اُنہیں کئی بار وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش ہو چکی تھی، لیکن اُنہیں اقتدار کا کبھی بھی لالچ نہیں رہا۔شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی وجہ سے وہ عوام کو ریلیف نہیں دے سکے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو دہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔ ایک طرف عمران خان اور ان کے خاندان کے خلاف کیسز میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور ان کے اہلِ خانہ کو بھی عدالتوں میں دھکیلا جاتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب تک اُن کے قائد نواز شریف اور اتحادی جماعتوں کا اُن پر اعتماد برقرار ہے، وہ کام کرتے رہیں گے۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آئے تھے، بلکہ تحریکِ عدم اعتماد کا آئینی راستہ اختیار کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "سن 1992 میں اس وقت کے صدر نے مجھے وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کی، پھر جنرل مشرف نے اُنہیں اس منصب پر فائز ہونے کا کہا اور جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو بھی اُن کا نام تجویز کیا گیا لیکن میں نے پنجاب میں جاری منصوبے مکمل کرنے کو ترجیح دی۔ '
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں ڈلیور کرتا ہوں لیکن جب عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہوں اور مہنگائی نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں تو چاہ کر بھی عوام کو ریلیف دینا مشکل ہو رہا ہے۔
شہباز شریف نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں فارن فنڈنگ کیس آٹھ برس سے زیرِ التوا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ عمران خان نے اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ لی، لیکن الیکشن کمیشن یہ فیصلہ جاری نہیں کر رہا۔
خیال رہے کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے دیگر رہنما ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کو اس لیے رُخصت کیا گیا کیوں ملک شدید معاشی مشکلات سے دوچار تھا۔ اس وقت ہم نے یہ سوچا کہ سیاست سے زیادہ ریاست بچانے کی ضرورت ہے۔ لہذٰا اسی وجہ سے ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑے۔
شہباز شریف بولے کہ 2018 کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، لیکن ہم نے ان نتائج کو قبول کیا۔ اپوزیشن اس وقت اپنی سیاست کو مقدم رکھتی تو پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ ہوتا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئین میں عدلیہ، مقننہ اور دیگر اداروں کا دائرہ اختیار واضح ہے۔