ماہرین کے پینل کا کہنا ہے کہ بوسٹن میراتھون بم حملوں کے مقدمے میں، اگر امریکی جیوری زوخار سارنیف کو سزائے موت کی جگہ عمر قید دیتا ہے تو اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ کال کوٹھڑی میں تنہا گزرے گا۔
اِسی جیوری نے گذشتہ ماہ 21 برس کے زوخار کو 15 اپریل، 2013ء کو میراتھوں ریس کی فنش لائن کے قریب ہونے والے بم حملوں میں تین افراد کی ہلاکت اور 264 کو زخمی کرنے کا مجرم قرار دیا تھا، جن حملوں کو 11 ستمبر، 2001ء کے امریکی سرزمین پر ہونےوالے حملوں کے بعد، سب سے بڑی دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے۔
بوسٹن کی یہ امریکی ضلعی جیوری اُنھیں یا تو سزائے موت دے سکتی ہے یا پھر بغیر رہائی کے عمر قید۔
زوخار سارنیف کے وکلا کی اب یہ کوشش ہے کہ عدالت کو عمر قید کی سزا پر قائل کرے، جسے اب وہ موت کی سزا سے بھی بدتر قرار دے رہے ہیں۔
مارک بیزی، کولوراڈو کے شہر، فلورینس میں وفاقی قیدخانے کے ایک سابق وارڈن ہیں۔ اُنھوں نے جیوری کے ارکان کو بتایا کہ اگر زوخار جیل جاتا ہے تو وہ حکومت امریکہ کی زیر نگرانی اِس تنصیب میں زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارے گا۔
بقول بیزی، ’انتہائی سکیورٹی کے تحت بند قیدی یا ’سپرمیکس‘ توبہ خانے کے باسی، دوسرے قیدیوں سے نہیں ملتے، جب کہ اُن کے تفریح کے لمحات کا معاملہ بھی تنہائی کا ہی ہوتا ہے‘۔
وہ کال کوٹھڑی میں بیٹھتے ہیں، جنھیں روزانہ کی بنیاد پر تالا لگایا جاتا ہے۔
تاہم، بیزی کے مطابق، زوخار سارنیف کو ہر ماہ پانچ ملاقاتوں کی اجازت ہوگی، ساتھ ہی جیل کے باہر سے اُنھیں فون کالز اور احباب سے خطوط موصول ہو سکتے ہیں۔
قید تنہائی کے باوجود، قیدی پائپ کی مدد سے ساتھ والی کوٹھڑی کے قیدی سے رابطہ کر ستا ہے، رقعے بھیج اور وصول سکتا ہے۔
زوخار کے وکلا کا استدلال ہے کہ بم حملوں کے حوالے سے، وہ اپنے بڑے بھائی تمرلان کے زیر اثر تھا، زوخار اُن کا کہا مانتا تھا۔ لیکن، اُن میں خود فیصلہ کرنے کی قوت نہیں تھی۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران، زوخار کے وکلا نے جیوری کے سامنے 400 سے زائد شہادتیں پیش کیں۔ اُن میں سے زیادہ تر نے چیچن نسل کے اس نوجوان کو ایک کم گُو شخص بتایا۔ اور ایسے میں جب اُن کی پڑھائی خطرے میں تھی اور اُن کا خاندان پریشان تھا، اُن کا لہجہ نرم رہا، یہ جوان جب بچہ تھا تب سے پسندیدہ رہا ہے۔
تفتیش کاروں نے دونوں مجرمان کے قبضے سے برآمد ہونے والے کمپیوٹرز سے القاعدہ کا پروپیگنڈہ مواد اخذ کیا، جب کہ زوخار سے برآمد ہونے والے رقعے میں مجرم نے تحریر کیا ہے کہ یہ بم حملے امریکی فوج کی جانب سے مسلمان ملکوں میں کی جانے والی کارروائیوں کا ایک بدلہ تھا۔
استغاثہ زوخار کے لیے سزائے موت کا خواہاں ہے۔ اُس کی دلیل ہے کہ وہ اور تمرلان حملے میں برابر کے شریک تھے۔ چھبیس سالہ تمرلان اُس وقت ہلاک ہوا جب بم حملوں کے تیسرے روز اُن کا پولیس کے ساتھ گولیوں کا تبادلہ ہوا۔