رسائی کے لنکس

دریائے ہلمند کے پانی سے متعلق، افغان طالبان اور ایران کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت


دریائے ہلمند کے پانی پر ایران افغانستان تنازعے سے متعلق مذاکرات میں پیش رفت
دریائے ہلمند کے پانی پر ایران افغانستان تنازعے سے متعلق مذاکرات میں پیش رفت

ویب ڈیسک ۔ دریائے ہلمند کے پانی کے حقوق پر ہفتوں کی کشیدگی کے بعداب ایران کا کہنا ہے کہ اس نے مشترکہ آبی گزرگاہ پر افغانستان کے طالبان حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے جمعرات کو ایرانی سرکاری میڈیا اسلامی جمہوریہ ایران براڈکاسٹنگ کو بتایا کہ ان کی حکومت کے طالبان کے ساتھ ’’مذاکرات اچھے ‘‘رہے ۔

’’انہوں نے کہا پانی کے حقوق کا مسئلہ ہمارے ایجنڈے پر ہے اورایرانی صدر نے افغانستان میں ایرانی سفیر حسن کاظمی قومی کو اس معاملے پر کام کرنے کی ذمے داری سونپی ہے ۔ (صدرکا ) خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات کو براہ راست اٹھانا چاہیے اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیئے ‘‘

دریائے ہلمندافغانستان کا سب سے طویل دریا ہے جس کی لمبائی تقریباً 1,150 کلومیٹر یا 715 میل ہے۔ یہ دریا ملک کے جنوبی اور جنوب مغربی صوبوں کے لیے روزگارکا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دریائے ہلمند ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں واقع ہامون جھیل کو پانی مہیا کرتا ہے جو صوبے کا اہم آبی ذریعہ ہے۔

1973 میں ایران اور افغانستان نے دریائے ہلمند کے پانی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے مطابق افغانستان کو ایک ’’عام‘‘ سال میں دریائے ہلمند سے ایران کو 850 ملین کیوبک میٹر پانی فراہم کرنا چاہیے

تاہم حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی فراہمی کا معاملہ کشیدگی کی وجہ بنا جو گزشتہ ہفتے مہلک تصادم کی شکل اختیار کر گیا اور ایرانی سیکورٹی فورسز کے دو ارکان اور طالبان کےایک گارڈکی ہلاکت ہوئی ۔

ایران اور طالبان کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ایران نے افغانستان کی ڈی فیکٹو حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا کہ اس نے ایران کے لئے پانی کے بہاؤ کو محدود کیا ہے ۔اسی تنازعے کے پس منظر میں گزشتہ ہفتے مہلک جھڑپیں اور کچھ ہلاکتیں ہوئیں ۔

دریائے ہلمند افغانستان
دریائے ہلمند افغانستان

کشیدگی کا آغاز گزشتہ ماہ اس وقت ہوا جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے طالبان کو دریائے ہلمند پر ایران کے (آبی) حقوق کا ’’احترام‘‘ کرنے کی تنبیہ کی ۔رئیسی نے 18 مئی کو جنوب مشرقی ایرانی صوبے سیستان اور بلوچستان کے اپنے دورے کے دوران کہا تھا کہ ’’ہم اپنے لوگوں کے حقوق پامال نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کو ان کے الفاظ پر ’’سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔‘‘

افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان افغانستان اور ایران کے درمیان 1973 کے پانی کے معاہدے کے پابند ہیں۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ’’افغانستان اور خطے میں خشک سالی کی صورتحال کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے ‘‘

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک سینئر فیلو فاطمہ امان کہتی ہیں کہ ’’ افغانستان اور ایران کے درمیان یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔‘‘

‘۔ فاطمہ امان : ’افغانستان اور ایران کے درمیان یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے
‘۔ فاطمہ امان : ’افغانستان اور ایران کے درمیان یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے

فاطمہ امان کا کہنا ہے کہ پانی کا تنازع صدیوں پرانا ہے اور اب بھی موجود ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کافی بارش ہوتی ہےیا پانی ہوتا ہے تو مسئلہ دور ہو جاتا ہے۔ لیکن اس وقت صورتحال خراب ہو جاتی ہے جب خشک سالی یا بارش کی کمی ہوتی ہے۔‘‘

مسلسل خشک سالی، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے مناسب انتظام کے فقدان نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سرحدی پانیوں پر تناؤ پیدا کر دیا ہے۔اگرچہ ان قوموں کے لیے آبی تحفظ پر تنازعات عام ہیں جن کی آبی گزرگاہیں مشترک ہیں ۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ایران اور افغانستان کے درمیان یہ تنازعہ کس حد تک بڑھ سکتا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ڈائریکٹر ریسرچ مائیکل او ہینلون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ ایران اور افغانستان کے درمیان کشیدگی ’’خطے کے لیے ایک بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر جائے گی۔‘‘

او ہینلون نے کہا کہ ان کے خیال میں اصل سوال یہ ہے کہ دونوں ملک ان مسائل پر کتنا تعاون کریں گے جن میں ان کی دلچسپی اور مفاد مشترک ہے ۔ او ہینلون کہتے ہیں کہ سرحدی کنٹرول اور انسداد منشیات جیسے مسائل پر آپ تعاون دیکھ سکتے ہیں۔

پیچیدہ‘ تعلقات‘

افغانستان میں1990 کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران ایران نے طالبان کے خلاف نبرد آزما افغان فورسز کی حمایت کی تھی خاص طور پر 1998 میں شمالی شہر مزار شریف میں طالبان کی جانب سے نو ایرانی سفارت کاروں کو ہلاک کرنے کے بعد ( یہ حمایت سامنے آئی تھی ) ۔تاہم ایران نے کابل کی پسپائی سے پہلے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے کیونکہ دونوں فریق خطے میں امریکی افواج کے خلاف متحد تھے۔اگرچہ ایران نے طالبان کو افغانستان کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے تاہم اس نے تہران میں افغان سفارت خانے کو طالبان کے حوالے کر دیا ہے۔

قریبی سفارتی تعلقات کے باوجود حالیہ برسوں میں سرحد پر جھڑپوں کی اطلاع ملی ہے۔افغانستان میں سابق امریکی سفیر ریان کروکر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایران اور طالبان کے درمیان تعلقات ’’بہت پیچیدہ ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطہ ایران افغانستان کے درمیان کسی نوعیت کی سرحدی جھڑپیں دیکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

(یہ خبر وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے لی گئی ہے)

XS
SM
MD
LG