بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے زامران میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے میں دو اہل کار ہلاک ہوئے جب کہ گزشتہ ماہ بھی سرحد کے قریب ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے علاقے ساراوان میں پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو حمہے کر کے قتل کیا گیا تھا۔
اس حملے کا الزام پہلے تو پاکستان میں موجود عسکریت پسند تنظیم 'جیش العدل' پر عائد کیا گیا تاہم بعد ازاں ایک غیر معروف تنظیم 'حریت پسند نوجوانانِ بلوچستان' کی جانب سے اس حملے پر بیان سامنے آیا کہ یہ صرف ایک وارننگ تھی اور گولی کا جواب گولی سے دیا جائے گا۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے بلوچستان سے ملحقہ پاکستان ایران سرحد پر شدت پسندی میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ایران اور پاکستان ان پرتشدد واقعات کی روک تھام میں تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے مابین سرحد کے معاملات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ دونوں جانب نہ صرف امن و امان کے مسائل پیدا ہوتے رہے ہیں بلکہ باہمی تعلقات پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
حالیہ دونوں میں سرحدی علاقوں میں کشیدگی ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب ایران اور پاکستان کے سربراہان نے نوسو کلومیٹر طویل سرحد پر واقع پشین، منڈ سرحدی گزرگاہ پر ایک روزگار مارکیٹ کا مشترکہ افتتاح کیا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے ایران کی جانب سے پاکستان کو 100 میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن پولان گبد کا بھی افتتاح کیا۔
بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں ایران پاکستان کی سرحد کے دونوں جانب موجود بلوچ قبائل پسماندہ، غریب اور بے روزگار ہیں اور حالیہ واقعات سرحد کے دونوں جانب موجود بے چینی اور اضطراب کا نتیجہ ہیں۔
سرحد پر بلوچ قبائل اور اسمگلنگ ذریعہ معاش
ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات اور بلوچستان کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی تجزیہ نگار عدنان بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین کی جانب سے سعودی عرب ایران تنازعات کے خاتمہ کی کوششوں کے بعد اس خطے میں امن اور ترقی کے امکانات روشن ہونے لگے ہیں۔ لیکن پاکستان ایران سرحد پر حالیہ واقعات اور خود پاکستان سے ملحقہ ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان میں بے چینی ایک خطرے کی طرح بہرحال موجود ہیں۔
پاکستانی صوبہ بلوچستان سے ملحقہ ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کا شمار ایران کے پسماندہ سنی اکثریتی صوبے میں ہوتا ہے۔ بلوچ قبائل پاکستان ایران سرحد کے آر پار آباد ہیں اور سیستان بلوچستان میں بلوچ قبائل اکثریت میں ہیں جن کا تعلق سنی مسلک سے ہے۔
مقامی صحافی ریاض بلوچ نے بتایا کہ حالیہ بے چینی کا آغاز فروری 2021 میں اس وقت ہوا جب ایران سرحد پر تیل کی اسمگلنگ میں ملوث بلوچ افراد اور ایرانی بارڈر سیکیورٹی اہل کاروں کے مابین جھڑپ ہوئی اور تین بلوچ نوجوان مارے گئے۔ چوں کہ پاکستان ایران سرحد پر مقیم بلوچ خاندانوں کا دار و مدار ایرانی تیل کی اسمگلنگ پر ہے اس لیے اس واقعے کے بعد ایک ہفتے تک صورتِ حال کشیدہ رہی۔
دوسری جانب گزشتہ سال جون میں سیستان بلوچستان کے علاقے چابھار میں پولیس کے سربراہ کے ہاتھوں ایک 16 سالہ بلوچ لڑکی کے مبینہ ریپ کی خبر سے بلوچ قبائل میں اشتعال پھیلا۔
صورتِ حال اس وقت مزید بگڑ گئی جب 30 ستمبر 2022 کو صوبائی دارالحکومت زاہدان کی مرکزی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے خطبے میں اس واقعے کا ذکر کیا گیا جس کے بعد نمازیوں نے مسجد کے باہر نکل کر احتجاج کیا۔
اس احتجاج کو پولیس نے روکنے کی کوشش میں گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر چند بلوچ افراد ہلاک ہوئے۔
مقامی بلوچ قبائل اس دن کو ’جمعہ خونین‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس سلسلے میں گزشتہ ایک سال سے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس طرح پرتشدد واقعات میں درجنوں کی تعداد میں ایرانی سیکیورٹی اہلکار اور بلوچ نوجوان مارے جا چکے ہیں۔
عدنان بلوچ کے مطابق ایران کی جانب سے بارڈر کے اس پار بلوچ قوم کے اوپر جو سختیاں کی جا رہی ہیں, ظاہری بات ہے اس کا ردِ عمل تو جیش العدل جیسی تنظیموں کی جانب سے آئے گا جو نظریاتی طور پر پہلے سے ہی ایران مخالف ہیں۔ لیکن وہ ان کی ذمہ داری نہیں لے رہی ہیں۔
سال 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ساٹھ لاکھ سے زائد جب کہ ایران میں ہونے والی 2013 کی مردم شماری کے مطابق بیس لاکھ بلوچ آباد ہیں۔پاکستان ایران سرحد کے آرپار آباد بلوچ قبائل میں یکساں طور پر احساس محرومی پایا جاتا ہے۔
'دی ہیگ اکیڈمی فار لوکل گورننس' کے اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں 60 فی صد سے زائد عوام خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جب کہ ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں ایران وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق 50 فی صد سے زائد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
بلوچ قبائل چوں کہ پاکستان ایران بارڈر کے دونوں طرف آباد ہیں اور ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اس لیے دونوں ممالک نے ان کو بارڈر کے آر پار سرحدکے قریب مخصوص علاقوں تک راہداری پرمٹ کے ذریعہ بارڈر کراسنگ کی سہولت دے رکھی ہے۔
پاکستان کے ساتھ ایران کے تین بارڈر کراسنگ لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی طویل سرحد پر کئی ایسے مقامات ہیں جن کو غیرقانونی طریقے سے پار کیا جاتا رہا ہے۔
قانونی باڈر کراسنگ میں پشین-منڈ بارڈر کراسنگ کو حال ہی میں فعال کیا گیا ہے۔ باقی دو بڑی بارڈر کراسنگز میں ضلع چاغی کی طرف تفتان بارڈر کراسنگ شامل ہےجہاں سرحد کے قریب ایرانی شہر میر جاوا اور زاہدان ہیں۔
پاکستانی حدود میں محمدحسنی،نوتیزئی،سیدنوتانی،موسی زئی،ہیجباڑی بلوچ قبائل آباد ہیں جن کا ذریعہ معاش زمین داری اور یا پھر ایرانی پیٹرول ڈیزل اور ایرانی اشیا کی اسمگلنگ ہے۔
ایران کی جانب ریکی،گمشادزئی،یار محمد زئی، شاہ بخش،گورگیج،حسن زئی اور دیگر بلوچ قبائل آباد ہیں۔ان کا بھی ذریعہ معاش زراعت اور یا پھرپیٹرول ڈیزل سمیت دیگر سامان کی اسمگلنگ سے وابستہ ہے۔
تیسری بارڈر کراسنگ ماشکیل کے مقام پر ہے جو ضلع واشک میں ہے۔یہاں سب سے بڑا بلوچ قبیلہ ریکی ہے اور ریکی قبیلہ اکثریت میں ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق یہاں پر بھی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت یا ایرانی تیل اشیا کی اسمگلنگ ہے۔
دوسری طرف ایرانی علاقے جالق اور سراوان واقع ہیں یہاں ریکی،سیانی،یارمحمد زئی،گمشادزئی اور دیگرقبائل آباد ہیں جن کا ذریعہ معاش بھی اسمگلنگ ہے۔
بارڈر کے آر پار بلوچ نوجوان روزگار سے محروم ہیں۔ تعلیم کی کمی، معاشی پسماندگی اور روزگار کی عدم موجودگی کے باعث اسمگلنگ کو ہی ذریعہ معاش سمجھا جاتا ہے۔
اسمگلنگ کی اقسام
ان علاقوں میں اسمگلنگ کی چار بڑی قسمیں ہیں۔ سب سے زیادہ روزگارکے مواقع ایرانی تیل اور ڈیزل کے کاروبار میں ملتے رہے ہیں۔
اس کے بعد ایرانی ساختہ اشیا جیسے کمبل، واٹرکولر، اشیائے خور و نوش اور دیگر گھریلو سامان کی اسمگلنگ سے بارڈر کے آرپار موجود قبائل کی آمدنی ہوتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی مختلف رپورٹس کے مطابق تیسرے نمبر پر انسانی اسمگلنگ بھی پاکستان ایران سرحد سے ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت اسی سرحد سے ایران کے راستے ترکی اور پھر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہاں موجود ٹرانسپورٹرز ان انسانی اسمگلروں سے اچھی خاصی رقم لیتے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم کی مختلف رپورٹس کی روشنی میں چوتھے نمبر پر اس بارڈر سے منشیات کی اسمگلنگ کی جاتی رہی ہے۔
منشیات کی اسمگلنگ سے پیسہ تو سرحد کے آر پار خوب کمایا گیا لیکن اس میں رسک بھی بہت ہوتا ہے اور انتہائی مخصوص لوگ ہی اس کاروبار سے وابستہ تھے۔
مقامی تجارت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران سرحد پر باڑ لگانے کے بعد اسمگلنگ اگر ناممکن نہیں تو کافی مشکل ہو گئی ہے۔ اس سے جو معمول کے مطابق تیل اور دیگر گھریلو اشیا کا کاروبار تھا، وہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور اب بے روزگاری اور غربت مزید بڑھ گئی ہے۔
جہاں تک زراعت کی بات ہے پانی کی قلت اور بسا اوقات خشک سالی کے باعث زراعت کا شعبہ پہلے سے ہی متاثر ہورہا ہے۔
پسماندگی اور غربت مزاحمتی تحریک کی وجہ
اس ماحول میں دونوں ممالک میں دو طرح کی تحریکوں نے جنم لیا۔ ایک قوم پرست مزاحمتی تحریکیں اور دوسری ایران اور سعودی عرب کے مابین تنازعات کے نتیجے میں پراکسی وار کے باعث شیعہ اکثریتی ایران میں سیستان بلوچستان میں سنی انتہاپسند تحریکیں متحرک ہوئیں۔
انتہا پسند تنظیموں جنداللہ اور جیش العدل کی بات کی جائے تو ماضی میں سعودی عرب سمیت خلیج کی ریاستوں پر ان کی پشت پناہی کا الزام لگتا رہا ہے۔
تاہم 2010 میں جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی کی گرفتاری اور ایرانی حکومت کی جانب سے پھانسی کے بعد ایران نے پالیسی یہ اختیار کی کہ ایران میں مقیم ریکی قبائل کو مراعات دیں اور اس قبیلے کے زیادہ تر نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں سے نوازا۔اس طرح کافی حد تک ان کا زور کم ہوا۔
دوسری جانب سعودی عرب اور ایران کے مابین حالیہ امن پیش رفت کے باعث پاکستان میں جیش العدل کی حمایت بھی کم ہو گئی ہے۔ لیکن بہرحال ان معاملات کو قریب سے جاننے والوں کا ماننا ہے کہ فرقہ وارانہ تفریق برقرار رہے گی جس کا فائدہ دیگر عسکریت پسند تنظیمیں اٹھا سکتی ہیں۔
قوم پرستی کے نظریات کے ساتھ کام کرنے والی بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی نو چھوٹی بڑی عسکریت پسند جماعتیں ہیں جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ریاست کے خلاف کسی نا کسی شکل میں برسرپیکار ہیں۔
ان تنظیموں کے کمانڈروں کا ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں اثر و رسوخ بھی ہے اور ان کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔
ماضیٴ قریب میں انہی تنظیموں کی لیڈرشپ اور جنگجو کارروائیوں کے بعد بھاگ کر افغانستان میں پناہ لیتے پائے گئے۔ یہ تنظیمیں بھی دونوں ممالک کے لیے درد سر بنی رہیں۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے افغانستان میں طالبان کی آمد اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کارروائیوں کے باعث یہ تنظیمیں کافی کمزور ہوئی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بارڈر کے دونوں جانب آباد بلوچ قبائل کی پسماندگی، غربت اور بے روزگاری نے ہی ان تناغات کو جنم دیا ہے۔ حال ہی میں ایران اور پاکستان کی جانب سے پشین-منڈ بارڈر پر روزگار مارکیٹ کا افتتاح اور قیام اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس کے ذریعے دونوں ممالک مقامی آبادی اور خصوصاً بلوچ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا چاہتی ہے۔
اس تحریر کے لیے سید فخرکاکاخیل نے تعاون کیا ہے۔