امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات پر وائٹ ہاوس کے ایک اعلی عہدےدار نے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں رہنماوں کے درمیان کئی موضوعات پر بات ہو گی جس میں انسدادِ دہشت گردی، دفاع، توانائی اور تجارت شامل ہیں۔ اس ملاقات کا مقصد خطے میں پائدار امن لانا اور دونوں ملکوں کے درمیان طویل شراکت داری قائم کرنا ہے۔
اعلی عہدےدار کا کہنا تھا کہ "ہم پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تعلقات کو ٹھیک کرنے اور طویل شراکت داری قائم کرنے کے لیے دروازے کھلے ہیں اگر پاکستان دہشت گردی اور جنگجوں کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کر لے۔"
اس بریفنگ کے دوران ایک صحافی کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ عمران خان کے ساتھ شکیل آفریدی کے کیس پر بات کریں گے؟ تو اس کے جواب میں اعلی عہدےدار کا کہنا تھا کہ ہاں، یہ صدر ٹرمپ اور امریکی عوام کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے اور انہیں رہائی ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عوامی سطح پر اور پاکستان کی اعلی قیادت سے ملاقاتوں میں شکیل آفریدی کی رہائی کی بات کی ہے۔ اور ہم ایک بار پھر پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں رہا کیا جائے۔
اعلی عہدے دار نے یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مکمل جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالے۔
پاکستان امریکہ تعلقات
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات حالیہ برسوں میں سرد مہری کا شکار رہے ہیں تاہم واشنگٹن اور طالبان میں مذکرات شروع کروانے کے معاملے پاکستان کی کوششوں کے بعد تعلقات میں پیشر رفت دیکھی جارہی ہے۔
بعض مبصرین کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان کو دورہ امریکہ کی دعوت دینا افغان تنازع کے حل کے لیے کی جانے والے پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرنا ہے۔
اگرچہ بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے امریکہ کے دورے کا بنیادی محور افغانستان کا معاملے ہو گا جو دونوں ممالک کی تعلقات کو ایک نئی سمت دینے کے تناظر میں اہم ہوگا۔ جس میں مبصرین کے خیال میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں فروغ دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
امریکہ ترجیحی تجارت کی سہولت فراہم کر سکتا ہے؟
پاکستان میں تجارت سے متعلق غیر سرکاری ادارے 'پاکستان بزنس کونسل' کے سربراہ احسان ملک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت افغان تنازع کے حل کے امریکہ سے تعاون کر رہا ہے۔ پاکستان کا تعاون امریکہ کے لیے اہم ہے، سیاسی اور تجارتی حوالوں سے تعاون بڑھانے میں مدد ملے گی۔
احسان ملک کا کہنا ہے کہ برآمدات کے لحاظ سے امریکہ پاکستان کا یورپی یونین کے بعد سب سے بڑا شراکت دار ہے۔ ہماری برآمدات امریکہ کے لیے سب سے زیادہ ہیں۔ پاکستان ہر سال تین ارب 60 کروڑ ڈالر کی برآمدات امریکہ کو کرتا ہے۔
احسان ملک نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کو امریکہ سے ترجیحی تجارتی سمجھوتے کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے جو پاکستان اور امریکہ دونوں کے مفاد میں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان دورے کے دوران پاکستان کے ترجیحی تجارت کی سہولت کا معاملہ امریکی قیادت کے سامنے رکھیں گے تو اس معاملے میں پیش رفت کا امکان ہو گا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں کاٹن اور سویا بین کی برآمدات میں اضافے کی گنجائش موجود ہے کیونکہ چین میں ان کی مارکیٹ اب اچھی نہیں رہی۔ ٹیرف میں اضافے کے بعد چین نے امریکہ سے سویابین کی درآمدات کم کر دی ہے۔ امریکہ کو اس صورت حال میں نئی مارکیٹ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری پاکستان امریکہ کو ہر سال لگ بھگ دو ارب 50 کروڑ ڈالر کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرتے ہیں وہ امریکہ کی کل ٹیکسٹائل درآمدات کا صرف 2.8 فیصد ہے۔
اس صورتحال میں ان کے بقول اگر پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمد میں اضافہ ہوتا ہے تو کسی تیسرے ملک کا نقصان نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کی وجہ سے امریکہ میں روزگار کے مواقع کم ہوں گے۔ اس لیے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہو گا۔
امریکہ کئی تجارتی شراکت داروں سے ترجحیی تجارت کے سہولت واپس لے رہا ہے تو وہ کیسے پاکستان کو یہ سہولت فراہم کر سکتا ہے؟ کے سوال پر کاروباری برداری کے نمائندے احسان ملک نے کہا ہے کہ ایسا ممکن ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو اس میں امریکہ اور ہمار ا دونوں کا فائدہ ہے۔ جب بھارت سے واشنگٹن نے یہ سہولت واپس لی تو امریکہ کا موقف تھا کہ بھارت امریکہ کی درآمدات پر زیادہ ٹیرف عائد کرتا ہے۔
احسان ملک مزید کہتے ہیں کہ پاکستان نے امریکی مصنوعات کاٹن اور سویابین پر زیادہ ٹیرف عائد نہیں کیا۔ اس لیے اگر امریکہ اور پاکستان کے درمیان ترجیحی تجارت کا کوئی سمجھوتہ طے پاتا ہے تو امریکہ کو کاٹن اور سویا بین پر جو بھی اس وقت ڈیوٹی یا ٹیرف ہے وہ کم ہو جائے گا۔ اس سے پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں اضافہ ہو گا۔
پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کے امکانات
امریکہ سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنا ممکن ہے؟ اس سوال پر پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ احسان ملک کا کہنا ہے کہ اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم امریکہ کے سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بہتری سب کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ اس کا فائدہ صرف چین یا پاکستان تک محدود نہیں ہوگا۔ جو بھی بیرونی سرمایہ کار پاکستان آئے گا اس کو بھی فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں امن عامہ کی صورت حال میں ہونے والی نمایاں بہتری کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری کی ر اہ ہموار ہو گی۔
احسان ملک کے بقول پاکستان میں امریکہ اور دیگر ملکوں کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے پالیسیوں میں تسلسل ضروری ہے۔
پاکستان کی پالیسیوں کا جھکاؤ چین کی طرف ہونے کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ اگر صورت حال کو معروضی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کو بنیادی ڈھانچے کی شدید ضرورت تھی اور چین نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے ثقافتی تعلقات چین اور پاکستان کے مقابلے میں بہت مضبوط ہیں۔ ہم ان کی زبان سمجھتے ہیں، بولتے ہیں۔ ہم ان کی موسیقی سنتے ہیں اور ہمارے لوگ امریکہ تعلیم کے لیے جاتے ہیں۔ ان تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکی سرمایہ کار پاکستان کو اسی تناظر میں دیکھے گا۔
'کئی چیلنج بھی درپیش ہیں'
تاہم پاکستان امریکن بزنس کونسل کی سیکرٹری جنرل آمنہ داؤدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات کے باوجود بھی ان کے بقول اس حوالے سے کئی چیلنج بھی درپیش ہیں۔
آمنہ داؤدی کہتی ہیں کہ پاکستان کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ایک محفوظ ملک نہیں ہے، پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے، جس سے باہر آنا ضروری ہے۔ پاکستان کا یہ تاثر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اگرچہ تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کے لیے وسیع امکانات ہیں تاہم سرمایہ کاری کی ترغیب کے لیے پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں تسلسل لانا ہو گا جس میں کاروبار کو آسان کرنے سمیت سرمایہ کاری سے متعلق پالیسی اور قوانین شامل ہیں۔