پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں وزیرِاعظم شہباز شریف، وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ اور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے حاضر سروس افسر میجر جنرل فیصل نصیر کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی چھاؤنیوں کےقریب مظاہرے کیے گئے۔
پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) کے بعض حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی کے باہر بھی احتجاج کیا گیا۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اگرچہ عمران خان پر حملے میں فوجی افسر کا نام لیا گیا ہے لیکن کسی بھی رہنما نے فوجی علاقوں یا دفاتر کے باہر مظاہرے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے، جس میں کارکنان کو اشتعال دلا کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دفاتر کے باہر لایا جا رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے گا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو وزیرآباد کے قریب پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں فائرنگ کی گئی تھی، جس میں عمران خان سمیت متعدد پی ٹی آئی رہنما زخمی ہوگئے تھے جب کہ ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔ عمران خان نے اپنے اوپر ہونے والے اس حملے کا الزام تین لوگوں پر عائد کیا ہے جس میں آئی ایس آئی کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر بھی شامل ہیں۔
البتہ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار نے عمران خان کے ان الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کو بھی فوجی افسر یا سپاہی کی تذلیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
عمران خان پر حملے کے بعد پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کیا گیا اور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی گئی جس میں لوگ کور کمانڈر پشاور کے گھر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔
بعد ازاں جمعے کو لاہور میں تحریک انصاف کے وکلا کا ایک جلوس لاہور کنٹونمنٹ کی طرف جاتا دکھایا گیا ہے۔ تاہم کنٹونمنٹ کی حدود میں داخلے سے قبل ہی فوج کی بھاری نفری سڑکوں پر موجود ہی۔ جس کے ساتھ ہی فوج کی اے پی سی گاڑی بھی نظر آ رہی ہے جس کے بعد احتجاج کرنے والے کچھ فاصلے پر مظاہرہ کرکے وہاں سے چلے گئے۔
ایسی بھی اطلاعات موصول ہوئیں کہ چند لوگوں نے دعویٰ کیا کہ وہ کراچی میں موجود فائیو کور کے باہر پہنچ گئے ہیں۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اب تک باضابطہ طور پر اس احتجاج کی حمایت نہیں کی گئی ہے۔
'پاکستان کی افواج کے خلاف عوام کو لایا جا رہا ہے'
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت غلط ٹرینڈ ہے جس کی روایت تحریکِ انصاف ڈال رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مسلح افواج جو پاکستان کی محافظ ہیں، انہی کے خلاف عوام کو لایا جا رہا ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر یہی ہے کہ عراق، لیبیا اور شام کی طرح عوام کو فوج کے خلاف کھڑا کرکے اپنے عزائم پورے کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی سیاسی لیڈر کی پختگی ہوتی ہے کہ وہ قومی سلامتی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک حاضر سروس جنرل پر الزام لگا کر آپ اسے ہٹانے اور اس پر ایف آئی آر درج کرنے کا کہیں۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔
ان کے بقول آپ سیاسی لڑائی سیاسی انداز میں لڑیں۔ اگر آپ کو شکایت ہے تو آپ وزیرِاعظم سے بات کریں، آپ بار بار فوج کو ہی مداخلت کا کہہ رہے ہیں جب کہ فوج واضح انداز میں کہہ چکی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہے۔
بریگیڈیئر حارث کا کہنا تھا کہ اگر آپ سیاسی مسائل کا حل اور الیکشن چاہتے ہیں تو حکومت سے بات کریں اور جلد الیکشن کا مطالبہ کریں۔ لیکن اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوج کو بدنام کرنا اور افسران پر الزام تراشی کرنا کسی طور درست نہیں۔
بریگیڈیئر (ر) حارث نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج میں احتساب کا نظام بہت سخت ہے۔ ایک لیفٹننٹ جنرل کو 14 سال کی سزا دی گئی، ایک بریگیڈیئر کو سزائے موت دی گئی۔ اس نظام کے تحت کوئی بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہے۔ لیکن پاکستان فوج اپنے افسروں اور جوانوں کا تحفظ کرنا بھی جانتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان عوام کو اشتعال نہ دلائیں۔ پشاور میں جو ہوا وہ بہت افسوس ناک ہے۔ عمران خان ابھی تک معاملات کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔
ان کے بقول عمران خان پرانی باتوں کا حوالہ دے کر بات کر رہے ہیں۔ ان کی جماعت کے سینیٹر اعظم سواتی افسران پر کسی ثبوت کے بغیر الزام لگا کر پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔
حارث نواز کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت یا مخالفین سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اس کے علاوہ فوج بھی یہ کہہ چکی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہے۔ ایسے میں عمران خان ملک کو انارکی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
'جو لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں انہیں نظریاتی طور پر جواب نہیں دیا جارہا'
دوسری جانب سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماضی میں ہونے والے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کا قدرتی ردِعمل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت تحریک انصاف کی اسٹیبلشمنٹ سے مخالفت اس وجہ سے نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو پسند نہیں کرتی، بلکہ دراصل معاملہ الٹ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح کردار ادا کرے اور ان کا ساتھ دے۔ ان کے بقول فریقین ایک دوسرے کے ساتھ جو کررہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔
ان کے بقول جو روایتی سیاسی رواداری اورسیاسی نظریات کی حامل سیاسی قوتیں ہیں وہ سائیڈ لائن ہوچکی ہیں کیوں کہ ان کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ کس طرف کھڑی ہوں اور کس کا ساتھ دیں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر سمجھ آ رہی ہے کہ جو قوتیں ایسی غیرسیاسی سوچ کے حامل افراد کو سیاست میں لائیں وہ یہ بھول گئی تھیں کہ سیاسی رواداری اور سیاسی نظریات ہی ملک کو بچا سکتے ہیں۔
مطیع اللہ جان کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ماضی کی غلطیوں کا کھل کر اعتراف نہیں کیا۔ آج جو لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں ان کو نظریاتی طور پر جواب نہیں دیا جارہا، اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ ماضی میں جن سیاسی نظریات اور جمہوری رویوں کو انہوں نے کمزور کیا آج وہ اس قابل بھی نہیں کہ وہ قومی سلامتی کے اداروں کا تحفظ اور دفاع درست طور پر کرسکیں۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی رہنماؤں کو گمراہ کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی مقابلہ نہیں کرپارہا تھا اور اب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نوجوانوں کو گمراہ کرنے والی سیاسی جماعت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اکیلی رہ گئی ہے۔
اس پورے معاملے پر پاکستان تحریک اںصاف کی جانب سے کوئی واضح ردِ عمل نہیں دیا گیا اور متعدد پارٹی رہنماؤں سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔