رسائی کے لنکس

یرغمالوں کی ہلاکت پر اسرائیل میں مظاہرے؛ کیا نیتن یاہو جنگ بندی کے لیے راضی ہو جائیں گے؟


  • غزہ جنگ کے دوران نیتن یاہو کے ناقدین کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ان کے لیے سیاسی بقا یرغمالوں کی سلامتی سمیت کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔
  • جنگ بندی کی شرائط سے متعلق نیتن یاہو اور ان کے وزیرِ دفاع کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
  • لیکن اتوار کو تل ابیب میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے غزہ میں یرغمال 100 افراد کی بازیابی کے لیے ’ڈیل ناؤ‘ کے نعرے لگائے۔
  • نیتن یاہو کے حامیوں کے نزدیک اگر چھ یرغمالوں کی ہلاکت کے بعد مؤقف میں نرمی دکھائی گئی تو اس سے حماس کو پیغام ملے گا کہ تشدد سے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ویب ڈیسک غزہ سے چھ یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیل میں ردِ عمل سامنے آیا ہے اور وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے جس کے لیے ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔

کئی اسرائیلی یرغمالوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے لیے نیتن یاہو کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور دیگر 100 یرغمالوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی معاہدے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اتوار کو اسرائیل میں یرغمالوں کی رہائی کے لیے معاہدے کے حق میں سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سب سے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس حملے میں حماس نے 250 اسرائیلیوں کو اغوا کر لیا تھا۔

حماس کے حملے کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کو 11 ماہ ہونے والے ہیں۔ اس دوران یرغمالوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کے ممکنہ معاہدے کے لیے وزیرِ اعظم نیتن یاہو پر دباؤ رہا ہے۔ تاہم چھ یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے حالیہ واقعے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

نیتن یاہو کی حکومت میں شامل ان کے اتحادی، اعلیٰ سیکیورٹی حکام اور اسرائیل کے سب سے اہم بین الاقوامی اتحادی امریکہ کی جانب سے بھی جنگ بندی کے معاہدے پر اصرار بڑھ رہا ہے۔ تاہم اس صورتِ حال کے باوجود غزہ میں جنگ روکنے کے کسی معاہدے کے امکانات تاحال واضح نہیں ہیں۔

ایسے حالات میں یرغمالوں کی بازیابی کے لیے بڑھتا عوامی دباؤ نیتن یاہو کی حکومت پر کس طرح انداز ہوگا؟ یہاں اس کے اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

نیتن یاہو کا جنگ بندی سے گریز؟

غزہ جنگ کے دوران نیتن یاہو کے ناقدین کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ان کے لیے سیاسی بقا یرغمالوں کی سلامتی سمیت کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت دو انتہائی قوم پرست جماعتوں کی مدد سے کھڑی ہے جو اس سے پہلے اسرائیلی سیاست میں ایک محدود گروہ کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اب حکومت میں اہم پوزیشن پر ہیں۔

حکومت کا وہ حصہ جو جنگ کے خاتمے اور اسرائیلیوں کے قتل کے الزام میں قید سزا یافتہ فلسطینیوں کی رہائی کی مخالفت کر رہا ہے اس کی سربراہی وزیرِ خزانہ بذلیل سموٹرچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر کر رہے ہیں۔

یہ رہنما پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ نتین یاہو نے اگر جنگ بندی کا معاہدہ کیا تو وہ ان سے اپنے راستے الگ کرلیں گے جس کے بعد نیتن یاہو کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد انتخابات ہوں گے جن میں نیتن یاہو کے دورباہ برسرِ اقتدار آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ سیاسیات ریوون ہزان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو صرف اپنی سیاست کی فکر ہے۔ ان کی سیاسی بقا، بن گویر اور سموٹرچ انہیں جنگ ختم اور یرغمالوں کی واپسی نہیں کرنے دیں گے۔

نیتن یاہو حماس کو کسی معاہدے پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔

اس وقت وزیرِ اعظم کے سر پر کرپشن کے الزامات کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر نیتن یاہو کی حکومت ختم ہوجاتی ہے تو وہ عدالتی نظام میں تبدیلی کے اپنے عزائم پورے نہیں کر پائیں گے۔ نیتن یاہو عدالتی نظام پر متعصب اور جانب دار ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

حکومت ختم ہونے کے بعد نیتن یاہو قانونی نظام میں بہت سی تبدیلیاں نہیں کر پائیں گے۔ نتین یاہو کے ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ ان تبدیلیوں سے انہیں عدالتی کارروائی سے گریز اور سزاؤں سے بچاؤ میں مدد ملے گی۔

نیتن یاہو کی مخالفت

نیتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیل کا مفاد ان کی پہلی ترجیح ہے اور غزہ میں جاری فوجی کارروائی یرغمالوں کی آزادی کا بہترین طریقہ ہے۔ وہ کوئی ایسا معاہدہ بھی چاہتے ہیں جس کے بعد اسرائیلی فوج غزہ کی دو راہداریوں میں مستقل بنیادوں پر موجود رہے۔

حماس کی جانب سے نتساریم اور فلاڈلفی نامی راہ داریوں میں اسرائیلی فورسز کی موجودگی کا مطالبہ مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان امریکہ کی مدد سے جنگ بندی کے جس مجوزہ معاہدے کے لیے بات چیت جاری ہے اس میں ان راہداریوں کا کنٹرول شامل ہے یا نہیں۔

تاہم نیتن یاہو مسلسل ان راہ داریوں میں اسرائیلی فوج کی موجودگی پر اصرار کر رہے ہیں اور پیر کو بھی انہوں نے اپنا یہ مؤقف دہرایا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو کے وزیرِ دفاع یوو گیلانت نے راہداریوں سے متعلق شرط کو 'غیر ضروری' قرار دیا ہے اور وزیرِ اعظم کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس غیر ضروری رکاوٹ کی وجہ سے ہم جنگ کے نتائج حاصل نہیں کر پائیں گے۔

غزہ میں ہونے والی ہزاروں ہلاکتوں اور مکمل تباہی کی وجہ سے اسرائیل کی عالمی تنہائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

پیر کو جب امریکہ کے صدر بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ کیا نیتن یاہو جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات کے لیے مطلوبہ کوششیں کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے اس کا جواب انکار میں دیا۔

امریکہ اور اسرائیل کے قریبی تعلق کے باوجود صدر بائیڈن نے کبھی نتین یاہو سے مکمل اتفاق نہیں کیا ہے بلکہ ان کے بارے میں بائیڈن کا رویہ بتدریج ناقدانہ ہو رہا ہے۔

لیکن پیر کو جس موقعے پر یہ بیان دیا گیا وہ بہت اہم ہے۔ کیوں کہ یہ بیان یرغمالوں کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والے غم و غصے اور احتجاج کے ماحول میں دیا گیا ہے۔

یرغمالوں کی بازیابی کے لیے مظاہرے

کئی اسرائیلی الزام عائد کرتے ہیں کہ نیتن یاہو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے جنگ ختم کرنے پر تیار نہیں اور یرغمالوں کی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اسرائیل کے لبرل روزنامہ اخبار ہارٹز نے اتوار کو اپنے اداریے میں لکھا "حماس نے بندوق کا ٹرگر دبایا لیکن (یرغمالوں کو) سزائے موت سنانے والے نیتن یاہو ہیں۔"

جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل میں یرغمالوں اور ان کے اہل خانہ سے یکجہتی کے لیے ہفتہ وار احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل میں حالات معمول پر آنے، اسرائیل کے ایران اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ سے تصادم کے خطرات اور خطے میں پھیلتے جنگ کے سایوں جیسے عوامل کی وجہ سے احتجاج اور مظاہروں کا دائرہ محدود ہوتا چلا گیا۔ اس کی وجہ سے نتین یاہو پر دباؤ کم ہوا اور معاہدے پر بات چیت بھی سست روی کا شکار ہوتی رہی۔

لیکن اتوار کو تل ابیب میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے غزہ میں یرغمال 100 افراد کی بازیابی کے لیے 'ڈیل ناؤ' یعنی ابھی معاہدہ کرو کے نعرے لگائے۔ ان یرغمالوں کی ایک تہائی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے تین مراحل پر مبنی ایک معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے۔

اتوار کو اسرائیل میں جنگ کے بعد سب سے بڑے مظاہرے ہوئے۔ جنگ سے قبل ایسے مظاہرے نیتن یاہو کی عدلیہ میں اصلاحات کے لیے لائے گئے قوانین کے خلاف دیکھے گئے تھے۔

مظاہروں اور عام ہڑتال نے نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو کچھ پسپائی یا مؤقف میں نرمی پر مجبور کیا ہے جب کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے عدالتی اصلاحات تعطل کا شکار ہوگئی ہیں۔

عوامی دباؤ کتنا مؤثر؟

تاہم حالیہ عوامی احتجاج اور دباؤ ایک حد تک ہی ہے۔ اتوار کو ہونے والے احتجاج میں اسرائیل کی تمام سیاسی قوتیں شامل نہیں تھیں۔ ان میں اکثریت لبرل اور سیکولر اسرائیلیوں کی تھی جو عدالتی قوانین میں تبدیلیوں اور نیتن یاہو کی قیادت پر کرپشن کے الزامات کے خلاف پہلے ہی احتجاج کر رہے تھے۔

موجودہ صورتِ حال میں نتین یاہو کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چھ یرغمالوں کی ہلاکت کے بعد اگر کوئی نرمی دکھائی جاتی ہے تو حماس کو یہ پیغام ملے گا کہ تشدد سے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

پیر کو ہونے والی ہڑتال میں اسرائیل کی یہی سیاسی تقسیم بھی نظر آئی۔ تل ابیب سمیت لبرل علاقوں میں مکمل ہڑتال ہوئی اور کئی جگوں پر اسکولوں سمیت دیگر شعبے بھی بند رہے۔

لیکن یروشلم سمیت ایسے دیگر شہروں میں ہڑتال نہیں ہوئی جہاں قدامت پسند اور مذہبی آبادی زیادہ ہے اور وہاں نیتن یاہو کی حمایت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک لیبر کورٹ نے ہڑتال میں کئی گھںٹے کم کرنے کے احکامات دیے جس کی وجہ سے اس کا اثر مزید کم ہو گیا۔

سیاسی مبصر ہزان کا کہنا ہے کہ احتجاج جس پیمانے پر ہوا ہے اس کے بارے میں بہ آسانی سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے نیتن یاہو پر مؤقف کی تبدیلی کے لیے کتنا دباؤ بڑھے گا۔

ان کے مطابق جب تک نیتن یاہو کی حکومت مستحکم ہے وہ اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنے کے لیے مذاکرات میں اپنے مطالبات پر ڈٹے رہیں گے اور احتجاج اور مظاہروں کو نظر انداز کرتے رہیں گے۔

اس کے باوجود غزہ میں قتل ہونے والے یرغمالوں کے اہل خانہ پُر امید ہیں کہ احتجاجی مظاہرے جنگ کے لیے اہم موڑ ثابت ہوں گے اور حکومت معاہدے پر پیش رفت کے لیے مجبور ہوجائے گی۔

اس تحریر کا زیادہ تر مواد ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG