ایک طرف پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے بقیہ 20 میچز کی تیاریاں عروج پر ہیں تو دوسری طرف فرنچائز مالکان نئے شیڈول کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ ان مشکلات کا تعلق ٹیم کی کارکردگی، یا ابو ظہبی کے گرم موسم سے نہیں بلکہ اسکواڈ کی فارمیشن سے ہے۔
گزشتہ ماہ ہی پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کے متبادل کھلاڑیوں کے لیے ڈرافٹنگ ہوئی تھی جس میں بنگلہ دیش کے شکیب الحسن اور محموداللہ، آسٹریلیا کے عثمان خواجہ اور نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل سمیت کئی نام ور کھلاڑیوں کو مختلف فرنچائزز نے منتخب کر لیا تھا۔
لیکن پاکستان سپر لیگ کی اچانک ابوظہبی منتقلی، بعض ٹیموں کی انٹرنیشنل کرکٹ میں مصروفیت اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر ایک اور'منی ریپلیس منٹ ڈرافٹ' کا انعقاد کرنا پڑا جس میں جہاں نئے کھلاڑیوں کی انٹری ہوئی، وہیں کچھ پرانے کھلاڑی بھی واپس آئے۔
آخر 'منی ریپلیس منٹ ڈرافٹ' کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟
فرنچائز کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ میں جہاں کئی نمایاں فرق ہیں، وہیں ایک قانون جو فرنچائز کرکٹ کو پرکشش بناتا ہے وہ ہے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی مقامی کرکٹرز کے ساتھ ایک ہی ٹیم میں موجودگی۔
کرونا سے قبل ہر فرنچائز پر لازم تھا کہ وہ اپنی فائنل الیون میں کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ چار غیر ملکی کھلاڑیوں کو شامل کریں گے۔ لیکن کرونا کے پیشِ نظر اب ہر ٹیم کی فائنل الیون میں کم از کم دو انٹرنیشنل کرکٹرز کو رکھا جائے گا۔ ہر فرنچائز ٹیم کو اپنے اسکواڈ میں 18 کے بجائے 20 کھلاڑیوں کو رکھنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
کراچی کنگز اور لاہور قلندرز نے فی الحال بیسویں کھلاڑی کو منتخب نہیں کیا، لیکن آئندہ دنوں میں وہ کسی بھی کھلاڑی کو فرنچائز کا حصہ بنا کر سرپرائز دے سکتے ہیں۔
کون ہے جو پی ایس ایل میں آیا؟
اس منی ریپلیس منٹ ڈرافٹ کے بعد کئی ٹیموں کو نئے کھلاڑی مل گئے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے شیمرون ہیٹ مائیر اب بنگلہ دیش کے محمود اللہ کے متبادل کے طور پر ملتان سلطانز کا حصہ ہوں گے۔
انہوں نے ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کرتے ہوئے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں پانچ سینچریاں اسکور کی ہوئی ہیں جب کہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ان کا 117کا اسٹرائیک ریٹ ان کی سلیکشن کی وجہ بنا۔
ایک اور ویسٹ انڈین کھلاڑی برینڈن کنگ بھی اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ 26 سالہ کنگ نے حال ہی میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کی اور ان کی شمولیت سے اسلام آباد کی ٹیم کو فائدہ ہو گا۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے افغان لیفٹ آرم اسپنر ظاہر خان کو آسٹریلوی آل راؤنڈر بین کٹنگ کے متبادل کے طور پر شامل کیا ہے۔ ویسے تو انہوں نے اپنے ملک کی نمائندگی صرف تین ٹیسٹ اور ایک ون ڈے انٹرنیشنل میں کی ہے، لیکن اپنی کارکردگی سے سب کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے۔
نان ٹیسٹ پلئینگ ممالک کے کھلاڑیوں کی پی ایس ایل میں آمد
پاکستان سپر لیگ کے باقی ماندہ میچز تو متحدہ عرب امارات میں ہو ہی رہے ہیں۔ لیکن اس کے وہاں انعقاد سے مقامی کھلاڑیوں کا فائدہ ہو گیا۔ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں متحدہ عرب امارات کے دو کھلاڑیوں کو پی ایس ایل کی دو فرنچائزز نے منتخب کر کے مقامی کنڈیشنز سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بطور ملتان سلطان اوپنر، متحدہ عرب امارات کے وسیم محمد کی پی ایس ایل میں انٹری ہوئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ برس ابوظہبی ٹی ٹین لیگ میں صرف 13 گیندوں پر 56 رنز اسکور کیے تھے اور اپنی دھواں دار بیٹنگ سے ناردرن واریئرز کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
دوسری جانب لاہور قلندرز نے یو اے ای کے پاکستانی نژاد لیفٹ آرم اسپنر سلطان احمد کو منتخب کرکے اپنا بالنگ اٹیک مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ جس سلیکشن پر لوگوں کو حیرت ہو رہی ہے. وہ ہے ٹم ڈیوڈ کا انتخاب، جن کا تعلق سنگاپور سے ہے۔ وہ آسٹریلوی بگ بیش کرکٹ میں ہوبارٹ ہریکینز کی جانب سے سب کے چھکے چھڑا چکے ہیں۔ انہیں آسٹریلیا کے جو برنز کے متبادل کے طور پر لاہور قلندرز نے منتخب کیا ہے۔
پرانے چہروں کی واپسی
افغانستان کے اسٹار لیگ اسپنر راشد خان نے پی ایس ایل کے چھٹے سیزن میں لاہور قلندرز کی دو میچز میں نمائندگی کی۔ لیکن انگلش کاؤنٹی سیزن میں ان کی متوقع مصروفیت کی وجہ سے ان کی جگہ لاہور نے بنگلہ دیشی آل راؤنڈر شکیب الحسن کو منتخب کیا۔
لیکن اب لاہور قلندرز کے کیمپ سے خوشی کی خبر یہ ہے کہ شکیب الحسن کی عدم دستیابی کے بعد راشد خان نے لاہور قلندرز کی نمائندگی کے لیے حامی بھر لی ہے اور لیگ کے تمام میچز کے بعد ہی وہ انگلش کاؤنٹی ایونٹ ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں سسکس کی نمائندگی کریں گے۔
ان کے اس فیصلے میں سب سے بڑا ہاتھ انگلینڈ کی سفری پابندیوں کا ہے۔ چوں کہ راشد خان افغانستان کے بجائے متحدہ عرب امارات ہی میں مقیم ہیں۔ اس لیے جب تک پی ایس ایل ختم ہو گی۔ امکان ہے کہ انگلینڈ بھی سفری پابندیوں میں نرمی کا اعلان کر دے گا۔
ایک اور کھلاڑی جن کی پی ایس ایل میں واپسی ہوئی ہے وہ ہیں سابق پاکستانی آل راؤنڈر حماد اعظم، ایک زمانے میں حماد اعظم کو عبدالرزاق کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پھر ان کا کریئر زوال کا شکار ہوا، وہ اب ملتان کی نمائندگی کریں گے اور اچھی پرفارمنس کے ذریعے پاکستان ٹیم میں کم بیک بھی کر سکتے ہیں۔
ایک اور سابق پاکستانی کھلاڑی عمر امین کو بھی اسلام آباد یونائیٹڈ نے منتخب کر لیا ہے۔ ایک زمانے میں عمر امین کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جو مستقبل میں پاکستان کی قیادت کی اہلیت رکھتے تھے لیکن مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے ان کا انٹرنیشنل کریئر جلد ہی ختم ہو گیا۔
کچھ کھلاڑیوں کی پی ایس ایل میں محدود شرکت
لاہور قلندرز، اسلام آباد یونائیٹڈ اور کراچی کنگز نے جن جن کھلاڑیوں کو منتخب کیا وہ پوری لیگ میں ان کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن کچھ کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو صرف تب تک لیگ کا حصہ ہوں گے جب تک یا تو انہیں نیشنل ٹیم واپس نہیں بلا لیتی یا پھر ان کا کوئی دوسرا اسائنمنٹ نہیں سامنے آ جاتا۔
ویسٹ انڈیز کے شیمرون ہیٹ مائیر ملتان سلطانز کے اور آندرے رسل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ایسے ہی دو کھلاڑی ہیں، جنہیں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کرنے کے لیے واپس جانا پڑ سکتا ہے۔
لیکن اس معاملے میں سب سے زیادہ نقصان پشاور زلمی کا ہو گا جن کے پاس کہنے کو تو ڈیوڈ ملر، فیبیئن ایلن اور فڈل ایڈورڈز جیسے کھلاڑی ہیں، لیکن وہ کب اور کس وقت واپس چلے جائیں، اس کا کچھ پتا نہیں۔