ڈرائیونگ کے دوران کبھی گاڑی خراب ہو جائے، سودا سلف لے جاتے ہوئے تھیلی پھٹ جائے یا موٹر سائیکل کی ٹکر سے کسی کو چوٹ لگ جائے، ہم نے یہی دیکھا ہے کہ آس پاس لوگوں میں سے کچھ لوگ فوراً آگے بڑھے اور مدد فراہم کی۔ اجنبیوں کو دوسرے اجنبیوں کی مدد کرتے دیکھ کر انسانیت پراعتماد ہمیشہ برقرار رہتا ہے مگر اس جدید دور میں کچھ واقعات دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ دنیا تو تیزی سے ترقی کر رہی ہے مگر انسانی معاشرہ زوال کا شکار ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہورہا ہے؟
گزشتہ ہفتے امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا کی 'ساؤتھ ایسٹرن پبلک ٹرانسپورٹ اتھارٹی' کی اک چلتی ٹرین میں ایک مسافر خاتون کا ریپ ہوا۔ پولیس کے مطابق یہ خاتون اور ملزم رات سوا نو بجے ایک ہی اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہوئے۔ پینتیس سالہ ملزم جو اب حراست میں ہے، خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرتا رہا جس کے بعد وہ خاتون پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کا ریپ کرتا ہے۔ ٹرین کا یہ حصہ خالی نہیں ہے، اس میں دوسرے مسافر بھی موجود ہیں۔ پولیس کے بیان کے مطابق سروویلنس کیمروں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آس پاس موجود افراد اس واقعہ کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کے سمارٹ فونز کے رخ خاتون کی جانب ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اس واقعے کو ریکارڈ کرنے میں مصروف ہیں۔ دو درجن سے زیادہ اسٹیشن گزر گئے، کوئی بھی اس عورت کی مدد کو آگے نہیں بڑھا، کوئی حملہ آور کو روکنے کی کوشش نہیں کرتا حتیٰ کہ کوئی نائن ون ون پر پولیس کو اطلاع دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔
بالآخر ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا ہی ایک آف ڈیوٹی ملازم یہ واقعہ دیکھتے ہی ٹرانسپورٹ اتھارٹی پولیس کو کال کرتا ہے جس کے تین منٹ کے اندر پولیس ٹرین پر پہنچ کر حملہ آور کو گرفتار کر لیتی ہے، اور خاتون کو، جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، طبی امداد کے لئے اسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔
اس واقعے پر عوام کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر یہ پہلا واقعہ نہیں۔ آپ کی نظر سے پہلے بھی ایسی ویڈیوز گزری ہونگی جن کو دیکھ کر ذہن میں یہ سوال ضرور آیا ہوگا کہ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس ایمرجنسی کی صورت میں ویڈیو بنانے والا شخص فون چھوڑ کر امداد کو دوڑتا۔
سماجی نفسیات میں "بائی سٹینڈر ایفیکٹ" یا "آس پاس موجود افراد کی بے حسی" کا تصور 1964 میں نیویارک شہر کی ایک بار میں کام کرنے والی اٹھائیس سالہ خاتون کٹی جینوویس کے قتل کے بعد ماہرین نفسیات 'بب لاٹانے' اور 'جان ڈارلی' نے پیش کیا۔
کٹی جینوویس کو کوئینز میں واقع اپنے اپارٹمنٹ کے قریب قتل کیا گیا۔ پولیس کی مطابق اس واقعے کو ہوتے ہوئے 38 لوگوں نے دیکھا مگر سب خاموش تماشائی بنے رہے۔ اگلے کئی سالوں میں پولیس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے گواہوں کی تعداد پر کئی سوالات اٹھائے گئے مگر لاٹانے اور ڈارلی نے 1970 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں یہ تھیوری پیش کی کہ کسی ایمرجنسی یا حادثے کی صورت میں ایک تنہا شخص کے آگے بڑھ کر مدد کرنے کے امکانات ایک گروہ میں موجود کسی شخص کے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کے امکانات سے زیادہ ہیں۔ ایک تنہا شخص کوئی واقعہ دیکھ کر خود کو مدد کرنے کا مکمل ذمہ دار سمجھتا ہے جبکہ گروہ میں موجود افراد یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ذمہ داری ان کے ساتھ موجود دوسرے لوگوں کی ہے۔
امریکہ میں ٹرین خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر کراچی یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر انیلہ امبر ملک تبصرہ کرتے ہوئے اسے معاشرتی بے حسی قرار دیتی ہیں، جس کی ان کے بقول،کوئی ایک وجہ نہیں۔ بعض اوقات لوگ مدد کرنے کے لئے اس لئے آگے نہیں بڑھ پاتے کہ وہ یہ اندازہ ہی نہیں لگا پاتے کہ یہ صورتحال اتنی سنگین ہے کہ انہیں آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہیئے۔ وہ اک اجتماعی لا تعکقی کا شکار ہوتے ہوئے، گومگو کی کیفیت میں ہوتے ہیں اور مدد کا وقت ہاتھ سے نکلتا جاتا ہے۔
پھر اکثر خود سے یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں کیا اس صورتحال سے نمٹنا ان ہی کی ذمّہ داری ہے؟ دوسری طرف مجمع میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اتنی صلاحیت یا قوت ہی نہیں کہ وہ اس واقعے کو ہونے سے روک سکیں، "ایسی صورت میں یہ افراد وہ کام کرتے ہیں جو انہیں آتا ہے، یعنی وہ اس واقعے کو ریکارڈ کرلیں، یا ایسا شخص بن جائیں جو اس واقعہ کا پہلا گواہ ہو، یا اس کی خبر دوسروں کو پہچانے والا سب سے پہلا شخص بن جائے".
ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا بلاشبہ سکڑ چکی ہے اورڈاکٹر انیلہ امبر کہتی ہیں کہ یہ بھی اک وجہ ہے کہ معاشرہ اجتماعی بے حسی کے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ دنیا میں کہیں کچھ ہو رہا ہو،تو منٹوں میں اس کی تفصیلات آپ کی ہتھیلی پہ رکھے سمارٹ فون سے آپ کو مل جاتی ہے۔ دنیا بھر میں پے در پے حادثات اور واقعات رونما ہوتے دیکھ کرلوگ بے حس ہوتے جارہے ہیں اور ایسا اچانک نہیں بلکہ بتدریج ہوا ہے، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر انیلہ امبر کہتی ہیں "یہ ایسا ہی ہے جیسے پہلی بار زخم لگے تو بے انتہا درد ہوتا ہے لیکن بار بار زخم لگنے پر درد کی شدت پھر ویسی محسوس نہیں ہوتی. بار بار ایک جیسے واقعات رونما ہوتے دیکھنے سے یا تو ذہنی صحت کا توازن بگڑے گا یا یہ انسان کو بے حس بنا دے گا"۔
تاہم سرعام کسی خاتون کا ریپ ہوتے خاموشی سے دیکھتے رہنا کیا اجتماعی بےحسی کی مثال ہے؟۔ فلاڈیلفیا میں پیش آنے والے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر انیلہ امبر کہتی ہیں کہ کچھ معاشرے اجتماعی ہوتے ہیں جبکہ کچھ انفرادی۔۔ موجودہ دور میں معاشرے انفرادیت کی طرف بڑھ رہے ہیں، لوگ اپنے کام سے کام رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، دوسروں کے مسائل میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں، ساتھ ہی وہ اس الجھن میں بھی ہوتے ہیں کے اس معاملے میں کودنے سے کہیں ان کی اپنی ذات کو تو کوئی خطرہ نہیں، اور اس طرح وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے۔
مدد نہ کرنا یا خود کو اس کا اہل نہ سمجھنا ایک بات ہے مگر کسی کی بے چارگی کو ریکارڈ کرنا اس خیال سے کہ اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جائے، وائرل کیا جائے بالکل مختلف ہے ( ٹرین پر پیش آنے والے واقعے کی تاحال کوئی وڈیو منظرعام پر نہیں آئی ہے) ۔نفسیات کہتی ہے کہ وہ معاشرے جو اپنی جڑوں سے مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہوتے ہیں، جو اپنے اخلاقی اصولوں کا دفاع کرتے ہیں۔ وہ حساس بھی ہوتے ہیں اور ردعمل بھی دیتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے واقعات بڑھنے سے روکنے کے لئے قوموں اور معاشروں کو اپنی اقدار کی جانب لوٹنا ہوگا، اجتماعیت کو پھر سے اپنانا ہوگا۔ اچھائی اور برائی میں فرق کرنا، کسی کے راستے کا پتھرہٹانا، مشکل میں آگے بڑھ کر مدد کرںا۔ غلط کام اور زیادتی کو روکنا، یہ وہ اوصاف ہیں جن کو اپنا کر بہترین معاشرے پنپتے ہیں۔ موجودہ معاشرتی بے حسی کا حل اجتماعیت میں ہے انفرادیت میں نہیں۔