رسائی کے لنکس

ڈونلڈ لو کی امریکی کانگریس میں گواہی؛ پی ٹی آئی کا ایک بار پھر سائفر معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ


  • پی ٹی آئی نے سائفر پر ڈونلڈ لو کے بیان پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
  • تحریکِ انصاف کے مطابق ڈونلڈ لو کے بیان پر اسد مجید کو اپنا بیان جاری کرنا چاہیے۔
  • پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ لو نے سائفر کے مواد اور ملاقات کو مسترد کیا ہے۔ جو بقول انکے درست نہیں ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ ڈونلڈ لو نے جو کہا وہ جھوٹ ہے۔ پی ٹی آئی اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ملاقات کے بعد بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے بدھ کو جو بیان دیا ہے اس پر اسد مجید کو اپنا بیان جاری کرنا چاہیے۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ سابق سفیر اسد مجید نے ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات کا اعتراف کیا تھا۔ اسد مجید نے اس ملاقات کے بعد جو سائفر بھیجا اس میں ملاقات کی تصدیق کی گئی اور اسی وجہ سے امریکی سفیر کو ڈیمارش کیا گیا۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ لو نے سائفر کے مواد اور ملاقات کو مسترد کیا ہے۔ اسد مجید نے سائفر کا مواد عدالت میں جمع کرایا ہے جب کہ ملاقات کی تصدیق کی ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم عدالتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم سے جیل میں ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عمران خان سے تفصیلی ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے یہ حکومت پانچ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی۔

ان کے بقول عمران خان اگر جیل سے باہر آئے تو وہ کسی ڈیل کے نتیجے میں باہر نہیں آئیں گے۔

واضح رہے کہ بدھ کو امریکی کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی میں پاکستان کے انتخابات سے متعلق سماعت کے دوران امریکی معاون وزیرِ خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے کہا تھا کہ انہوں نے یا امریکہ کے کسی عہدیدار نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کی تبدیلی میں کسی قسم کا کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔

امریکی کانگریس میں ہونے والی اس سماعت کو 'پاکستان انتخابات کے بعد؛ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کا جائزہ اور پاکستان امریکہ تعلقات' کا عنوان دیا گیا تھا۔

اس سماعت میں بیان دینے والے ڈونلڈ لو امریکہ کے معاون وزیرِ خارجہ برائے جنوبی و ایشیائی امور ہیں۔ وہ لگ بھگ 30 برس قبل پاکستان کے اندر بطور جونیئر ڈپلومیٹ خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ان کا نام دو سال قبل اس وقت میڈیا میں بہت لیا جانے لگا جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے والے تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کو بیرونی دباؤ کی وجہ سے حکومت سے ہٹایا گیا۔

عمران خان نے ایک ریلی میں کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ وہ سائفر ہے جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔

اس سائفر میں اسد مجید نے تحریر کیا کہ ڈونلڈ لو نے ان سے ایک ملاقات کے دوران غیر سفارتی انداز میں گفتگو کی اور دعویٰ کیا کہ ڈونلڈ لو نے دھمکی دی کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو پاکستان کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

بعد ازاں پرائم منسٹر ہاؤس کی ایک آڈیو لیک میں عمران خان مبینہ طور پراپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے سائفر پر بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا۔

سائفر کے سیاسی مقاصد کے استعمال پر عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی پر مقدمہ چلا اور انہیں سزائیں سنائی گئیں۔

سال 2022 میں نو اور 10 اپریل کی درمیانی شب پاکستان کی قومی اسمبلی سے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد منظور ہوئی تھی۔ ان کی وزارتِ عظمیٰ کے خاتمے کے بعد شہباز شریف وزیرِ اعظم بن گئے تھے۔

امریکی محکمۂ خارجہ اس سے قبل بھی کئی بار’رجیم چینچ‘ میں کسی کردار کی تردید کر چکا ہے۔

بدھ کو ہونے والی سماعت میں ڈونلڈ لو نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ انہوں نے یا امریکہ کے کسی عہدیدار یا کانٹریکٹر نے پاکستان کے اندر عمران حکومت کی تبدیلی میں کوئی کردار ادا نہیں کہا۔

یہ سماعت ایک ایسے موقع پر ہوئی جب نہ صرف پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ بلکہ امریکہ میں بھی دو درجن سے زائد ارکانِ کانگریس نے ان انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں اور صدر بائیڈن سے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ جب تک انتخابی عمل سے متعلق شفاف تحقیقات نہیں ہو جاتیں، نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔

انتخابات کے حوالے سے ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالیہ انتخابات کے لیے امریکہ نے فری اینڈ فئیر کی اصطلاح کبھی استعمال نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے اور پولنگ کے بعد بے ضابطگیوں کی انتخابی مبصرین نے شکایات کی ہیں جس کی تحقیقات پاکستان کا الیکشن کمیشن کر رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل ہونے والے تشدد اور انتخابی زیادتیوں پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا کیوں کہ سیاست دانوں سمیت سیاسی اجتماعات اور پولیس پر حملے ہوئے اور کئی صحافیوں خاص طور پر خواتین صحافیوں کو سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی جانب سے ہراساں بھی کیا گیا۔

ڈونلڈ لو نے کہا کہ کئی سیاسی رہنما خود کو مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ رجسٹر نہیں کرا سکے۔

فورم

XS
SM
MD
LG