رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ، حکومتی حلقوں کی تنقید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، چیئرمین تحریکِ انصاف
  • عدالتی فیصلہ اُن طاقت ور قوتوں کی شکست ہے جو چاہتیں تھیں کہ تحریکِ انصاف کی نشستیں چھین کر بانٹ دی جائیں، بیرسٹر گوہر
  • اب پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکے گا، چیئرمین سنی اتحاد کونسل
  • آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا حق ہے۔ لیکن یہ فیصلہ تشریح سے آگے چلا گیا ہے۔ لیکن اس فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، وزیرِ قانون
  • سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی رسوائی ہے، صحافی کامران خان

ویب ڈیسک _ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر جہاں پی ٹی آئی جشن منا رہی ہے وہیں حکومتی حلقوں کی جانب سے عدالتی فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے۔

تحریکِ انصاف نے فیصلے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے فوری استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دیا ہے۔

تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ان طاقت ور قوتوں کو شکست ہوئی ہے جو چاہتیں تھیں کہ تحریکِ انصاف کی نشستیں چھین کر مالِ غنیمت کی طرح بانٹ دی جائیں۔

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی چیف الیکشن کمشنر کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کے مستقبل کا اس حد تک تعین کر دے کہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکے گا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو کسی اور جماعت کا امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے اور انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے سے نہیں روکتا۔

عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور تحریک انصاف کے ارکان کو آزاد ظاہر کر کے غلط کیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے فہرست جمع کرائے۔

'یہ فیصلہ سوال گندم اور جواب چنا ہے'

سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا حق ہے۔ لیکن یہ فیصلہ تشریح سے آگے چلا گیا ہے۔ لیکن اس فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سنی تحریک سپریم کورٹ میں ریلیف لینے گئی تھی، لیکن ریلیف تحریکِ انصاف کو مل گیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سوال گندم اور جواب چنا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جس آئین کو ہم پڑھتے ہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے برعکس ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار کامران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کی رسوائی ہے اور الیکشن 2024 تو پہلے سے ہی رسوائی سے دوچار ہے۔

سینئر صحافی طلعت حسین کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اسٹبلشمنٹ کی شکست جب کہ تحریکِ انصاف کی جیت ہے۔

صحافی بے نظیر شاہ کے مطابق مخصوص نشستیں تحریکِ انصاف کو ملنے سے اب یہ 112 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ حکمراں اتحاد کے پاس 209 نشستیں ہوں گی۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر فیصلہ سنایا ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اکثریتی فیصلہ ہے اور 13 میں سے آٹھ ججوں نے اس کی حمایت جب کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت پانچ ججوں نے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں لیکن الیکشن کمیشن 80 میں سے ان 39 ارکان اسمبلی کے تناسب سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے جنہوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کیا تھا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق بقیہ 41 اراکین وابستگی کے حوالے سے 15 روز میں الیکشن کمیشن میں اپنا حلف نامہ جمع کروائیں۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل نہیں۔ کیوں کہ پارٹی نے انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی۔

کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی لگ بھگ 80 نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی تھی جن کی دعویدار سنی اتحاد کونسل تھی۔

تاہم جمعے کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فیصلے کا اطلاق قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہو گا اور الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کی فہرست دوبارہ مرتب کرے۔

فورم

XS
SM
MD
LG