پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے 14 مئی کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے اُمیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم بہت سے پارٹی کارکن ٹکٹ نہ ملنے پر مایوس ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی منظوری کے بعد جمعرات کی صبح اُمیدواروں کی فہرست پی ٹی آئی کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کی گئی جن میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے 297 حلقوں میں سے بیشتر حؒلقوں میں براہِ راست الیکشن کے لیے اُمیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے۔
صوبائی اسمبلی کے 12 حلقوں میں اُمیدواروں کو فی الحال ٹکٹ جاری نہیں کیے گئے۔
جن اُمیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں، ان کے انٹرویوز چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے خود کیے تھے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی نے لاہور میں اُن حلقوں پر خاص توجہ دی ہے جہاں 2018 کے انتخابات میں پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ایک برس کے دوران عمران خان کی عوامی مقبولیت میں اضافے کے باعث ایک حلقے پر پارٹی ٹکٹ کے کئی اُمیدوار سامنے آئے تھے۔ لہذٰا ٹکٹوں کے اعلان کے بعد کئی کارکنوں کا مایوسی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
خیال رہے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوا ر 20 اپریل تک اپنے ٹکٹ جمع کرا سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سمیت دیگر جماعتوں نے فی الحال اُمیدواروں کا اعلان نہیں کیا۔
پی ٹی آئی کے جن امیدواروں کو پنجاب اسمبلی کے لیے ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں اُن میں سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار، میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، راجہ بشارت، فیاض الحسن چوہان، یاور عباس، سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم سمیت دیگر امیدواروں کے نام شامل ہیں۔
پی ٹی آئی نے اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار سبطین خان، عثمان ڈار، علی افضل ساہی ،حسن نیازی، خیال کاسترو، زین قریشی، ہاشم ڈوگر، محسن لغاری، جمشید دستی، آصف نکئی، حسین بہادر دریشک کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی آئی میں شامل میں ہونے والے سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری مونس الہیٰ، باؤ رضوان، حافظ عمار یاسر کو بھی ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔
لیکن رہنما تحریکِ انصاف فواد چوہدری، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، حماد اظہر کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان رہنماؤں کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ دیے جائیں گے۔
'جو رہ گئے انہیں بلدیاتی الیکشن میں ایڈجسٹ کریں گے'
پاکستان تحریک انصاف وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے زمان پارک میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کو صوبائی اسمبلی کی ٹکٹس نہیں دی جا سکتی تھیں۔ ٹکٹس دینے کا فیصلہ عمران خان نے خود کیا، لہذٰا سب اسے ماننے کے پابند ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ابھی قومی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہونے ہیں جن لیڈروں کو صوبائی اسمبلی کے ٹکٹس نہیں مل سکے وہ قومی سیاست میں کردار ادا کریں گے۔
مبصرین کے مطابق ٹکٹوں کے حصول کے باوجود کسی بھی صوبائی اسمبلی کے حلقے میں انتخابی گہما گہی نظر نہیں آ رہی حتٰی کہ پی ٹی آیی ک کوئی امیدوار بھی متحرک نہیں ہے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ کیا صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں گے یا نہیں اِس حوالے سے سیاسی جماعتوں اور اداروں میں ابہام پایا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک فیصلے میں صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
'پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ 14 مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے'
تجزیہ کار اور کالم نویس سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ 14مئی کو انتخابات نہیں ہونے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے باوجود پنجاب جیسے بڑے صوبے میں انتخابات کا ماحول دکھائی نہیں دے رہا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم ہونے جا رہا ہے جس میں سبھی لوگ اُس سمت میں جانے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
کالم نویس اور تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ عدالتِ عظمٰی نے انتخابی شیڈول جاری کیا۔ اُس پر کتنے لوگوں نے کاغذات جمع کرائے وہ سب کو پتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی اپنی مرضی سے کھیل کھیلے گا تو ایسا ہی ہو گا جو اِس وقت ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انتخابی شیڈول ایک آئینی ادارے کو جاری کرنا ہوتا ہے لیکن اُس کے بجائے کوئی دوسرا ادارہ جاری کرے تو ابہام پیدا ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
لیکن وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمان نے فنڈز جاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پنجاب میں الیکشن کا ماحول دُور دُور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ لگ رہا ہے کہ 14 مئی تو کیا آنے والے کئی ماہ میں بھی الیکشن نہیں ہوں گے۔
افتخار احمد کی رائے میں جب ایک ادارے کے اختیارات کوئی دوسرا ادارہ استعمال کرتا ہے تو نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب لوگوں کو یقین ہو گا کہ جس ادارے کی ذمے داری ہے اور وہی انتخابی شیڈول جاری کر رہا ہے تو انتخابی گہما گہمی بھی شروع ہو جائے گی۔ ہار جیت بعد کی بات ہے۔