رسائی کے لنکس

بھارت: پولیس کو مقتول عتیق احمد کی اہلیہ شائستہ پروین کی تلاش


بھارتی ریاست اترپردیش میں ہفتے کی شام پولیس تحویل میں سابق رُکن پارلیمان عتیق احمد اور اُن کے بھائی اشرف احمد کے اندوہناک قتل کے بعد پولیس کو اب مقتول عتیق کی اہلیہ شائستہ پروین کی تلاش ہے۔

اترپردیش کی پولیس نے ان کے سر پر 50 ہزار روپے کا انعام رکھا ہوا ہے اور وہ ان کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے۔

شائستہ پروین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شوہر، دیور اور بیٹے کی طرح اُن کے خلاف بھی مقدمات درج تھے۔لیکن حالیہ برسوں میں وہ ایک گھریلو خاتون کی طرح زندگی بسر کر رہی تھیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات نے اُن کے لیے حالات یکسر بدل کر رکھ دیے ہیں۔

تیرہ اپریل کو ان کا 19 سالہ بیٹا اسد جھانسی کے نزدیک پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا جب کہ 15 اپریل کو اُن کے شوہر عتیق احمد کو پولیس تحویل میں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

عتیق احمد مافیا ڈان، گینگ لیڈر، ہسٹری شیٹر اور دبنگ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ سابق رکن پارلیمان و رکن اسمبلی بھی تھے۔ 15 اپریل کو جب کہ انہیں پولیس حراست اور تحفظ میں طبی معائنے کے لیے پریاگ راج کے ایک اسپتال میں لے جایا جا رہا تھا تو اسپتال کے احاطے میں تین حملہ آوروں نے کیمرے کے سامنے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق شائشتہ پروین کو 2005 میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رُکن اسمبلی راجو پال کے قتل میں 2009 میں ملزم بنایا گیا۔اس کے علاوہ اُن کے خلاف دھوکہ دہی اور فراڈ کے کچھ مقدمات بھی درج ہیں۔

اکیاون سالہ شائستہ پروین موجودہ پریاگ راج اور سابق الہ آباد کے داموپور گاؤں میں ایک پولیس کانسٹیبل محمد ہارون کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔

انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی سرکاری پولیس کوارٹر میں گزاری۔ ان کا ایک بھائی کسی مدرسے کا ذمے دار ہے۔ ان کے سسرال والوں کا جرم کی دنیا سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔

ان کے خاندانی پس منظر کے مطابق انہوں نے تنازعات سے دور رہ کر ایک پر امن زندگی جینے کی توقع کی ہو گی۔ لیکن 1996 میں الہ آباد کے عتیق احمد سے شادی کے بعد ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا۔

عتیق کی جہاں معمولی تعلیم ہوئی تھی وہیں شائستہ گریجویٹ ہیں۔ ان کے پانچ بیٹے ہیں جن میں سے ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا جب کہ دو جیل میں بند ہیں اور دو نابالغ ہیں اور جووینائل ہوم میں ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق شائستہ نے جرم کی دنیا میں شامل ہونے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ وہ صرف گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں۔

لیکن پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ راجو پال قتل کیس کے ایک اہم گواہ امیش پال اور دو پولیس محافظوں کی ہلاکت میں شامل رہی ہیں۔ امیش پال کا اسی سال 24 فروری کو پریاگ راج میں دن دہاڑے گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جب عتیق جیل میں تھے تو شائستہ نے ان کا گروہ سنبھالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عتیق کو اگر گاڈ فادر تو شائستہ کو گاڈ مدر کہا جاتا تھا۔ ان دنوں وہ عتیق کی مجرمانہ سرگرمیوں میں رفتہ رفتہ ملوث ہوتی چلی گئیں۔

عتیق کے ایک رشتے دار اور پراپرٹی ڈیلر محمد ذیشان کا دعویٰ ہے کہ ایک بار عتیق نے 25 شوٹرز کے ساتھ اپنے ایک بیٹے کو ان کے پاس بھیجا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنی زمین شائستہ کے نام کر دے۔ انہوں نے پانچ کروڑ روپے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ذیشان کا کہنا ہے کہ شائستہ نے عتیق کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے انہیں دھمکیاں دی تھیں۔

عتیق کے جیل میں رہنے کے دوران شائستہ نے سیاست میں بھی قسمت آزائی کی۔ انہوں نے 2021 میں رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کی سیاسی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین میں شمولیت اختیار کی۔

لیکن 2023 میں وہ مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی میں شامل ہو گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ پارٹی ان کو الہ آباد کے میئر کے انتخاب میں ان کو اپنا امیدوار بنائے گی۔ لیکن جب ان کا نام راجو پال قتل معاملے میں سامنے آیا تو مایاوتی نے انہیں اپنا امیدوار بنانے سے انکار کر دیا۔

سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈوز وائرل ہیں جن میں ان کے بیٹے اسد کو اسد الدین اویسی کی پارٹی کے عوامی جلسے میں اسد الدین کی موجودگی میں تقریر کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

جب کہ ایک ویڈیو میں عتیق احمد عوامی جلسے میں لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ دو وقت کی جگہ پر ایک ہی وقت کی روٹی کھائیں لیکن اپنے بچوں کو ضرور تعلیم دلوائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا بہت احساس ہوتا ہے کہ ان کی اعلیٰ تعلیم نہیں ہوئی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت میڈیا کے نزدیک اگر کوئی بڑی خبر ہے تو وہ شائستہ کی ہے۔ تمام نیوز چینل شائستہ کی روپوشی اور پولیس کی جانب سے ان کی تلاش کی رپورٹنگ کر رہے ہیں جس پر بعض مبصرین نے تنقید کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میڈیا شائستہ کو ایک خطرناک گینگ لیڈر کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے۔


سابق آئی پی ایس اور مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس محمد وزیر انصاری کا کہنا ہے کہ میڈیا شائستہ کو ایک ویلن کے طور پر پیش کر رہا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے بلکہ ان کے پرائیویسی کے حق کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے سیاسی فائدے کے لیے یہ سب کر رہی ہے۔ وہ معاشرے میں ہم آہنگی اور امن و امان کے قیام کے بجائے مذہب کے نام پر لوگوں کو بانٹ رہی ہے۔

انہوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ شائستہ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو سکتا ہے جو ان کے بیٹے اور شوہر کے ساتھ ہوا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عتیق کے قتل میں بڑی طاقتیں ملوث ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں کہا کہ ایسے واقعات میں ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں حملہ آوروں کو سزائے موت دے دی جائے یا جیل ہی میں ان کا قتل ہو جائے تاکہ عتیق کے قتل کی سازش میں ملوث عناصر کے نام سامنے نہ آسکیں۔ انہوں نے اس معاملے میں پولیس کے کردار پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

عتیق کے قتل کے سلسلے میں اس وقت میڈیا میں تین خطوط کا حوالہ دیا جا رہا ہے جن میں ایک خط چیف جسٹس آف انڈیا کے نام ایک وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام اور ایک الہ آباد کے چیف جسٹس کے نام ہے۔


رپورٹس کے مطابق دو خطوط کی تفصیلات عام نہیں ہوئی ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ کے نام شائستہ پروین کے خط میں عتیق اور اشرف کے قتل کی مبینہ سازش کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ خط 27 فروری کو لکھا گیا تھا۔

محمد وزیر انصاری اسی خط کا حوالہ دیتے ہیں جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عتیق کے قتل کی مبینہ سازش میں ایک ریاستی وزیر اور چند اعلیٰ پولیس عہدے دار ملوث ہیں۔

شائستہ پروین کی مبینہ مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 120 کے تحت مجرمانہ سازش کی جو بات کہی گئی ہے وہ بہت مبہم ہے۔ بقول ان کے کسی کو بھی کسی معاملے میں پھانسنے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شائستہ پروین کا مجرمانہ سرگرمیوں سے تعلق نہیں ہے۔ ان کو بدنام کیا جا رہا ہے۔

اب اترپردیش کی پولیس شائستہ پروین کو تلاش کر رہی ہے اور اس مہم میں اس نے پریاگ راج اور پڑوسی ضلع کوشامبی میں متعدد مقامات پر چھاپے ڈالے ہیں۔ اس نے ان کے بارے میں اطلاع دینے والے شخص کو 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔

کوشامبی کے ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار سمر بہادر نے میڈیا کو بتایا کہ بدھ کو ڈرون کی مدد سے بھی شائستہ کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شائستہ اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد عدت میں ہیں، وہ کسی سے نہیں مل سکتیں۔ اس لیے پولیس کی تلاشی مہم کے کامیاب ہونے کی امید کم ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG