اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر سوزن رائس نے کہا کہ لیبیا کے حکام کو اپنے اقدامات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ پیر کے روز ہی امریکی وزیر خارجہ ہلری کلٹن نے بھی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں لیبیا میں تشدد کی مذمت کی۔ امریکہ نے لیبیا کے خلاف کچھ پابندیاں کرتے ہوئے 30 بلین ڈالر تک کے اثاثے منجمد اور دفاعی سازوسامان کی فروخت معطل کر دی ۔ مریکی وزارت دفاع کے مطابق امریکی بحریہ کو لیبیا کے قریبی علاقوں میں بھی بھیجا جارہا ہے ۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس اقدام کا مقصد کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے 16ویں سیشن کے دوران ایک مرتبہ پھر لیبیا میں پُر امن مظاہرین پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کرنل قذافی اور ان کے ساتھیوں کو ان واقعات کے لیے ذمہ دار ٹہرانا بہت ضروری ہے جو بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی اصولوں کے خلاف کام کررہے ہیں اور جو اپنے اقدامات کی وجہ سے حکومت کرنے کے اہل نہیں رہے۔ لیبیا کے شہریوں نے واضح کر دیا ہےکہ قذافی کو فوراً کسی تاخیر یا مزید تشدد کے بغیر اب چلے جانا چاہیے۔
اس دوران لیبیا کے مشرقی خطے میں حکومت سے بغاوت کرنے والے گروپوں نے عارضی حکومتی کونسل قائم کرنے کے بعد اپنے علاقوں سے تیل کی فراہمی دوبارہ شروع کردی اور لیبیا کے مغربی خطے میں واقع شہر زاویہ میں صدر قذافی کے خلاف مظاہرے جاری رہے۔
لیبیا کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سوزن رائس کا کہناہے کہ مجھے حالیہ دنوں میں کوئی اور ایسا واقعہ یاد نہیں جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاملے پر اتنی جلد کوئی حتمی فیصلہ کیا ہو۔
لیبیا کے مشرقی خطے کے شہر توبرک میں بھی سپاہی مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئےہیں ۔ لیکن حکومت کے خلاف مسلسل مظاہروں کے باوجود صدر قذافی ابھی تک حکومت چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔
واشنگٹن میں عرب ممالک پر کام کرنے والے تھینک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ایک عہدے دار سکاٹ کارپنٹر کا کہناہے کہ اگر قذافی طرابلس پر قبضہ رکھنا چاہتے ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔ لیکن ہم ان کے ارد گر لوہے کی سلاخیں گاڑ دیں گے اور قذافی کو لیبیا کے اُن حصوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے جو ان کی حکومت سے الگ ہو چکے ہیں۔
افریقہ کی جانب سابق امریکی سفیر ہرمن کوہن صدر قذافی کے ساتھ طویل بات چیت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیٹو یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ صدر قذافی کو اقتدار سے الگ کرنے کے عمل کی قیادت کریں اور امریکہ وہاں نئی حکومت کی تشکیل کا کام لبیا کے شہریوں پر چھوڑ دے۔
امریکی انتظامیہ نےگزشتہ ہفتے کے آخر میں معمر قذافی کی حکومت کے عہدے داروں کے ویزے منسوخ ، ان کے اثاثے منجمد اور لیبیا کودفاعی سازوسامان کی فروخت عارضی طور پر معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔