بلوچستان کے سرحدی ضلع میں ایک مذہبی جماعت کے رہنما کے گھر میں زوردار دھماکے سے دو افراد ہلاک، سات بچوں اور چار خواتین سمیت 11 افراد کو مقامی اسپتال منتقل کر دیا گیا، جن میں سے چار کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے، جبکہ گھر کے ملبے تلے 30 سے زائد افراد کو نکالنے کی کو شش کی جارہی ہے۔
پولیس حکام کے بقول، پاک افغان سرحد کے قریب ضلع سیف اللہ کے مرکزی بازار کے علاقے جوگیزئی روڈ پر واقع مُلا حبیب اللہ کے مکان میں جمعرات کو رات گئے ایک زوردار بم دھماکہ ہوا جس سے مٹی کا بنا ہوا مکان ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
ضلع قلعہ سیف اللہ کی پولیس تھانے کے انسپکٹر محمد یوسف نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ملبہ ہٹانے کے بعد دھماکے کی جگہ سے دو لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جبکہ سات بچوں اور چار خواتین سمیت خاندان کے 11 افراد کو اسپتال منتقل کر دیا گیا، جن میں دو شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم، اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہے کہ یہ دھماکہ کس نوعیت کا تھا اور ایک عالم دین کے گھر کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔
ڈپٹی کمشنر ضلع قلعہ سیف اللہ، شفقت شاہوانی نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ مُلا حبیب اللہ نامی شخص کے گھر میں 30 سے 35 افراد موجود تھے۔ اسی اثنا میں ایک ٹریکٹر وہاں آیا اس کی ٹرالی سے کوئی چیز اتاری جارہی تھی کہ اسی اثنا میں یہ زوردار دھماکہ ہوا اور ملاحبیب اللہ سمیت تمام افراد مکان کے ملبے کے مٹی نیچے دب گئے انہوں نے کہا کہ امدادی سرگرمیاں کئی گھنٹوںؒ سے جاری ہیں، لیکن مٹی کے نیچے دبے ہوئے افراد کو نکالا نہیں جاسکا۔
انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق مُلا حبیب اللہ کا تعلق ماضی میں جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے ساتھ رہا ہے، جو افغان طالبان کی سب سے زیادہ حمایت کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعت سمجھتی جاتی ہے۔
دھماکے کی جگہ افغان سرحد سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ قلعہ سیف اللہ سے افغان سرحد کی طرف غیر قانونی کئی راستے جاتے ہیں۔ تاہم، قانونی سرحد قمر دین کاریز کے نام سے مشہور ہے، جہاں تھوڑی بہت کاروباری سرگرمیاں اور لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔
یہ دھماکہ ایسے وقت میں ہوا جہاں صرف ایک روز قبل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں پولیس کی ایک چوکی کے قریب ہونے والے خودکش حملے میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت دس افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے قبول کرلی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ کالعدم ’ٹی ٹی پی‘ کے نیٹ ورک کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اب صرف بچے کھچے عناصر بعض اوقات سیکورٹی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن ان کا بھی جلد خاتمہ کر دیا جائیگا۔