سیکیورٹی پر تعاون سے متعلق امریکہ ، بھارت، آسٹریلیا ، اور جاپان پر مشتمل چار ملکو ں کے گروپ یا کواڈ نے جمعے کے روز جنوبی اور مشرقی چین کے سمندروں کے متنازع علاقوں میں فوجی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ۔
امریکہ آسٹریلیا ، بھارت اور جاپان کے اعلی سفارت کاروں نے ایسے میں نئی دہلی میں اجلاس کیا جب کہ بیجنگ متنازع بحری علاقوں میں اپنے دعوؤں پر زور د ے رہا ہے جس سے انڈو پیسفیک خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر خدشات پیدا ہو گئے ہیں ۔
کواڈ اجلاس کے بعد جاری ایک مشترکہ بیان میں چین کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ ہم متنازع خصوصیات کی فوجی سر گرمیوں ، ساحلی حفاظتی کشتیوں اور بحری ملیشیا کے خطرناک استعمال اور دوسرے ملکوں کے ساحلی علاقوں سے قریب وسائل میں خلل ڈالنے کے لیے استحصالی سر گرمیوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں ۔
"بحری قوانین پر مبنی ضابطوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزراء نے کہا کہ ہم موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے یا علاقے میں کشیدگی بڑھانے سے متعلق کسی بھی یک طرفہ اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں ۔
چین تقریبا پورے جنوبی چین کے سمندر پر اقتدار اعلی کا دعوے دار ہے اور اس کے خطے کے مختلف ملکوں کےساتھ تنازعات ہیں مثلاً فلپائن، برونائی ، ملائیشیا اور ویتنام۔ اس نے ان جزائر پر فوجی اڈے بھی قائم کر لیے ہیں جو وہ متنازع پانیوں میں تعمیر کر چکا ہے ۔
کواڈ خود کو ایک اسٹریٹیجک فورم کہتا ہے لیکن بیجنگ اس گروپ کو واشنگٹن کی جانب سے اپنے اسٹریٹجک اور فوجی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسے گھیرنے کی ایک کوشش سمجھتا ہے ۔
چین نے جمعے کو کواڈ پر اپنی تنقید کو دہرایا اور وزارت خارجہ کی ترجمان ماو ننگ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ متعلقہ ممالک ایسے اقدام کریں گے جو علاقائی ملکوں میں سیکیورٹی اور باہمی تعاون میں اضافہ کریں گے اور علاقائی امن بر قرار رکھیں گے۔
نئی دہلی میں ایک الگ فورم سے خطاب کرتے ہوئے، کواڈ وزرائے خارجہ نے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک فوجی گروپ ہے اور اس بات پر زور دیا وہ ایشیا میں غیر فوجی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر مرکوز ہے، مثلاً جمہوریت، گڈ گورننس، عالمی صحت اور آفات میں مدد وغیرہ۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ گروپ ملکوں کی مدد کے لیے مل کر کام کرنے میں مصروف ہے، کہا کہ یہ کوئی فوجی گروپ نہیں ہے۔ یہ اس قسم کا اتحاد نہیں ہے۔ وہ ملکوں سے چین اور ان کے درمیان انتخاب کے لیے نہیں کہتے ۔
ایسےہی پیغامات جاپانی اور آسٹریلوی وزرائے خارجہ کی جانب سے آئے۔ جاپانی وزیر خارجہ یوشیما ہے یاشی نے کہا کہ کواڈ نہ تو سیکیورٹی کے مسائل کے لیے ہے اور نہ ہی فوجی مسائل کے لیے ۔
انہوں نے کہا کہ جب تک چین بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی پاسداری کرتا ہے اور ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں ، معیار اور قوانین کے تحت کام کرتا ہے تو یہ چین اور کواڈ کے درمیان کوئی متصادم مسئلہ نہیں ہے ۔
آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ گروپ ارکان کے درمیان عملی تعاون پر مرکوز ہے ۔ کیونکہ وہ ایشیا میں ترقیاتی اقدامات پر کام کرتے ہیں۔
نئی دہلی میں اپنے خطاب میں بلنکن نے یہ بھی کہا کہ روس کو یوکرین میں جنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ اگر ہم روس کو وہ کچھ کرنے کے لیے استثنا دے دیتے ہیں جو کچھ وہ یوکرین میں کر رہا ہے تو پھر یہ مستقبل میں ہر جگہ کسی بھی جارح کے لیے ایک پیغام ہو گا کہ وہ بھی اس سے بچ سکتے ہیں ۔
روس کی جانب سے یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے کواڈ کے وزرائے خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا اس کے استعمال کی دھمکی ناقابل قبول ہے اور انہوں نے بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک جامع، منصفانہ ، اورپائیدار امن پر زور دیا ۔
کواڈ کا اجلاس بھارتی دارالحکومت میں اس کے ایک روز بعد ہوا جب گروپ 20 کے وزرائے خارجہ چین اور روس کے اعتراضات کے بعد یوکرین میں روس کی جنگ کی مذمت میں مشترکہ بیان جاری کرنے میں ناکام رہے۔
(انجنا پسریجا، وی او اے نیوز)