رسائی کے لنکس

کواڈ اجلاس: انڈو پیسفک میں مشترکہ کوسٹ گارڈ مشن کا اعلان، مودی کا چین پر تنقید سے گریز


  • کواڈ رہنماؤں نے مشرقی اور جنوبی بحیرۂ چین کی صورتِ حال پر شدید فکرمندی کا اظہار کیا
  • صدر بائیڈن نے کہا کہ چین نے اپنا جارحانہ رویہ جاری رکھا ہوا ہے اور معیشت و ٹیکنالوجی سمیت مختلف محاذوں پر ہمیں آزما رہا ہے
  • وزیرِ اعظم مودی نے کہا کہ کواڈ کا اپنی جمہوری اقدار کے ساتھ کام کرنا تمام انسانیت کے مفاد میں ہے
  • کواڈ رہنماؤں نے اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کی اور غزہ میں جنگ بندی پر زور دیا

نئی دہلی__ امریکی صدر جو بائڈن کی میزبانی میں ڈیلاویئر میں منعقدہ امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل چار ملکوں کے بلاک کواڈ کے سربراہی اجلاس میں آزاد، کھلے اور محفوظ انڈو پیسفک پر زور دیا گیا اور اس کے لیے پہلی بار مشترکہ کوسٹ گارڈ مشن قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

اجلاس کے اختتام پر ہفتے کو جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ہم مشترکہ اقدار کے ذریعے قانون کی حکمرانی پر مبنی عالمی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

کواڈ رہنماؤں نے مشرقی اور جنوبی بحیرۂ چین کی صورتِ حال پر شدید فکرمندی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی بحیرۂ چین میں عسکریت پسندی اور جبر و دھمکی آمیز ہتھکنڈے تشویش کا باعث ہیں۔

چین کی وزارتِ خارجہ نے اس پر تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

کواڈ نے امریکی، جاپانی، آسٹریلیائی اور بھارتی کوسٹ گارڈز پر مبنی ’کواڈ۔ایٹ۔سی‘ آبرزرور مشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ مشن اگلے سال 2025 میں قائم ہوگا۔ اس کے بقول مشن کا مقصد بحری تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

اعلامیے کے مطابق ’میری ٹائم انی شیٹیو فار ٹریننگ ان انڈو پیسفک‘ کا مقصد خطے کے انڈو پیسفک شراکت داروں کو اپنے آبی علاقے کی نگرانی، اس کا تحفظ، اپنے قوانین کا نفاذ اور غیر قانونی اقدامات کے تدارک کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹولز کے استعمال کے قابل بنانا ہے۔

بھارت 2025 میں اس کے افتتاحی اجلاس کی میزبانی کرے گا۔

امریکی صدر جو بائڈن نے کواڈ رہنماؤں سے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ اپنے داخلی معاشی چیلنجز اور ان سے لاحق دشواریوں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ چین نے اپنا جارحانہ رویہ جاری رکھا ہوا ہے اور معیشت و ٹیکنالوجی سمیت مختلف محاذوں پر ہمیں آزما رہا ہے۔

امریکی حکومت کے ایک سینئر اہل کار نے صدر بائڈن کے اس تبصرے کی شدت کم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ بیان امریکہ کے سابقہ بیانات سے مطابقت رکھتا ہے۔

جب کہ کواڈ رہنماؤں نے انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمیوں پر بڑھتی عالمی تشویش کے تناظر میں خطے میں طاقت اور جبر کے ذریعے یک طرفہ طور پر اسٹیٹس کو تبدیل کیے جانے کی کسی بھی کوشش کی سختی سے مخالفت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ایک ایسا خطہ چاہتے ہیں جہاں کسی کا غلبہ نہ ہو۔ جہاں تمام ممالک جبر سے آزاد ہوں اور اپنے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے اپنی ایجنسیز کا استعمال کر سکیں۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریند رمودی نے کہا کہ کواڈ کسی کے خلاف نہیں ہے۔ یہ قوانین پر مبنی عالمی نظام اور آزادی و خود مختاری کے احترام کے حق میں ہے۔ آزاد، کھلے، سب کے لیے اور قوانین و ضوابط پر مبنی انڈو پیسفک ہماری ترجیح ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمارا پیغام واضح ہے کہ کواڈ قائم رہے گا۔ امداد کرے گا، شراکت داری کرے گا اور ایک دوسرے کے مقاصد کی تکمیل کرے گا۔

ان کے بقول کواڈ کے رہنما ایسے وقت پر ایک ساتھ آئے ہیں جب پوری دنیا کشیدگی اور جد و جہد سے گھری ہوئی ہے۔ ایسے میں کواڈ کا اپنی جمہوری اقدار کے ساتھ کام کرنا تمام انسانیت کے مفاد میں ہے۔

چین پر مودی کی خاموشی

نریندر مودی کے بیان کے حوالے سے بعض تجزیہ کاروں نے سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے جہاں واضح طور پر چین پر تنقید کی وہیں مودی نے مبہم گفتگو کی۔ انھوں نے چین کا نام تو نہیں لیا لیکن اشارہ اسی کی طرف تھا۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیرِ اعظم مودی بعض وجوہ سے چین کے خلاف کوئی سخت بیان دینا نہیں چاہتے۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت اور چین کی باہمی تجارت بہت آگے جا چکی ہے۔ سال 2023-2024 میں دونوں ملکوں کے مابین 118.3ارب ڈالر کی تجارت ہوئی ہے۔ چین کو بھارت کی برآمدات میں 8.7 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مالیاتی تجارت میں برآمدات میں اضافہ بہت بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ابھی تک باہمی تجارت چین کی جانب جھکی ہوئی تھی جسے بھارت متوازن کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔

ان کے مطابق گلوان میں ٹکراؤ کے بعد چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی کال دی گئی تھی۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اب تو بالکل نہیں ہے۔ اس وقت بھارتی بازار چینی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی بازاروں میں چینی کھلونے، چین میں بنی ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں، پتنگوں کے مانجھوں اور دیگر اشیاءکی خوب ڈیمانڈ ہے۔

تجزیہ کارو ں کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ 29 اگست کو سرحدی تنازع کو دور کرنے کے لیے مذاکرات کا 31 واں دور ہوا۔ دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ نے الگ الگ بیانات میں مذاکرات کو کامیاب اور تعمیری قرار دیا اور آگے بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

پشپ رنجن کہتے ہیں کہ حالاں کہ وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بارہا کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات سنگین نوعیت کے ہیں لیکن اب ان میں بہتری آرہی ہے اور رشتوں میں تلخی بھی کم ہو رہی ہے۔ ایسے میں بھارت نہیں چاہتا کہ وہ چین کے خلاف کوئی سخت موقف اختیار کرے اور باہمی تعلقات پھر خراب ہو جائیں۔

یوکرین اور غزہ

تجزیہ کاروں کے مطابق حسبِ توقع کواڈ اجلاس میں انڈو پیسفک میں چین کی سرگرمیوں کے تناظر میں اعلانات کیے گئے۔ حالاں کہ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران یوکرین جنگ اور غزہ کے بارے میں بھی کوئی اعلان ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

تاہم مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ہم میں سے ہر ایک نے جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرین کا دورہ کیا اور بذاتِ خود حالات کا مشاہدہ کیا۔ ہم بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اور علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے احترام کے ساتھ جامع اور دیر پا امن کے قیام کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

انھوں نے جنگ کی وجہ سے ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ملکوں میں غذا اور توانائی کی سلامتی پر پڑنے والے منفی اثرات کی نشان دہی کی اور کہا کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کا استعمال یا استعمال کی دھمکی ناقابل قبول ہے۔

کواڈ رہنماؤں نے گزشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت اور انسانی بحران ناقابلِ قبول ہے۔

انھوں نے حماس کے ذریعے یرغمال بنائے جانے والے اسرائیلی شہریوں کی محفوظ رہائی کو ضروری قرار دیا اور اور اس بات پر زور دیا کہ یرغمالوں کی رہائی غزہ میں فوری جنگ بندی لے آئے گی۔ انھوں نے غزہ میں انسانی امداد کو تیز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG