پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان ایک عرصے سے دہشت گردی اور شورش پسندی کا شکار رہا ہے لیکن رواں ہفتے کے اوائل میں مرکزی شہر کوئٹہ میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں مارے جانے والے 70 سے زائد افراد میں ایک بڑی تعداد سینیئر وکلا کی بھی تھی اور اتنی بڑی تعداد میں وکلا کی موت کو صوبے میں انسانی و سماجی حقوق سے متعلق اٹھنے والی آواز کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
پیر کو بم دھماکے سے قبل بلوچستان بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کو نامعلوم مسلح افراد نے ہدف بنا کر قتل کر دیا تھا اور ان کی لاش جب شہر کے سول اسپتال منتقل کی گئی تو شہر بھر کے وکلا اور عدلیہ کے ججز نے یہاں کا رخ کیا۔
اسی دوران اسپتال کے باہر ایک خودکش بم دھماکا ہوا جس میں وکلا، ماتحت عدلیہ کے جج اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت 72 افراد ہلاک ہوگئے۔
مارے جانے والوں میں بدعنوانی کے خلاف آواز بلند کرنے اور وکلا کی تنظیم کے سابق صدر باز محمد کاکڑ اور کوئٹہ لا کالج کے سب سے کم عمر پرنسپل کا اعزاز حاصل کرنے والے اصلاح پسند عدنان کاسی بھی شامل تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان سے علیحدہ ہونے والے ایک دھڑے جماعت الاحرار کے علاوہ شدت پسند گروپ داعش نے بھی قبول کی تھی لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ اس کا ہدف صرف وکلا برادری تھی۔
دہشت گرد بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور پولیس کو تو نشانہ بناتے آئے تھے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ بم دھماکے میں اتنی بڑی تعداد میں وکلا نشانہ بنے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بلاشبہ وکلا ہی سماجی انصافیوں اور عدم مساوات کے بارے میں آواز بلند کرتے ہیں اور اس تازہ واقعے سے یہ آواز متاثر ہو گی۔
"وکیل مختلف امور پر آواز اٹھاتے ہیں ظاہر ہے اور لوگ سرکاری ملازمت بھی کرتے ہیں تو وہ اس طرح نہیں بولتے تو اس واقعے سے اس پر اثر تو پڑے گا یہ درست بات ہے۔۔۔بہت سے (وکیل) ابھی ہیں اور نئے بھی آجائیں گے لیکن ہر کسی کی اپنی جگہ ہوتی ہے کردار ہوتا ہے۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیر کو ہونے والے مہلک خودکش بم دھماکے کے محض دو روز بعد ہی کوئٹہ میں ایک اور بم دھماکا ایک ایسے وقت ہوا جب زرغون روڈ سے وفاقی شرعی عدالت کے جج ظہور شاہوانی کا قافلہ گزر رہا تھا۔
دھماکے میں جسٹس شاہوانی تو محفوظ رہے لیکن چار پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد زخمی ہوگئے۔