پولیس اہل کاروں کے مطابق، بلوچستان کی صوبائی حکومت کی طرف سے عوام کی بہبود اور بہتری کےلئے کئے گئے اقدامات کے دعوﺅں کے باوجود، کوئٹہ شہر گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ لیکن، شہر میں ٹریفک کا مسئلہ روز بروز گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور ہر علاقے میں ٹریفک جام رہنے سے شہریوں کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔
بلوچستان کو ایک جانب چین کے ساتھ مشترکہ راہداری کا مرکز قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن، دوسری طرف صوبائی دارالحکومت کی سڑکوں کا عالم یہ ہے کہ شہر میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کےلئے جو اشارے لگائے گئے ہیں اُن میں سے بیشتر کام نہیں کر رہے ہیں، یہی حال صوبے کے 33 اضلاع کے مرکزی شہروں کا بھی بتایا جاتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق، کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں لگائے گئے ٹریفک اشاروں کی بتیاں خراب ہونے پر اُتار دی گئیں یا چوری ہوگئی ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر علاقوں میں کھمبوں کو بھی نکال دیا گیا ہے، اور اب ٹریفک پولیس کے اہلکار شدید گرمی میں مختلف چوکوں پر کھڑے ہو کر ٹریفک کو ہاتھ کے اشاروں سے کنٹرول کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
سنئیر سپرٹنڈنٹ پولیس، نذیر احمد کُرد کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں ٹریفک کی بلا تعطل آمد و رفت یقینی بنانے کےلئے ایک مربوط منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے، جس کے مطابق، ابتدائی طور پر سات پرانے سگنلز کو آئندہ ایک ماہ میں بحال کیا جائے گا۔
بقول اُن کے، ’’شہر میں جہاں پر بھی پہلے ٹریفک سگنلز تھے سب سے پہلے اُن کی مرمت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ’کوئٹہ سیف سٹی‘ کے منصوبے میں شہر کی تقریباً تمام چوراہوں پر ٹریفک سگنلز لگانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔‘‘
ایک محتاط اندازے کے مطابق، کوئٹہ کی آبادی 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور صوبے کا مرکزی شہر ہونے کے ناطے صوبے کے بیشتر اضلاع کے لوگ یہاں کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں آتے رہتے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں رہنے والے شہریوں اور صوبے کے دیگر اضلاع سے آنے والے لوگوں کی گاڑیوں کو کنٹرول کرنے کےلئے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی تعداد صرف 400 ہے۔
ٹریفک پولیس حکام کے بقول، صوبائی حکومت نے شہر میں ٹریفک کے گھمبیر مسائل میں کمی کےلئے مزید 250 جوان بھرتی کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس کے علاوہ، صوبائی حکومت کو ٹریفک سے جڑے مسائل کے حل کےلئے ایک ماسٹر پلان بنا کر دے دیا گیا ہے، جس میں شہر میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے پلازے تعمیر کرنے، بعض سڑکوں اور چوراہوں کو کشادہ کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
کوئٹہ شہر میں فرائض انجام دینے والے ٹریفک پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹیبل غلام نبی نے ’وی او اے‘ سے گفتگو کے دوران کہا کہ ٹریفک سگنلز نہ ہونے کے باعث اُن کےلئے ڈیوٹی مسئلہ بن گیا ہے۔
گرمیوں میں سخت دھوپ اور سردیوں میں منفی درجہٴ حرارت میں ہمارے نوجوان ٹریفک کی روانگی بلا کسی خلل کے جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن، بہت ہی کم شہری ایسے ہیں جو ٹریفک پولیس سے تعاون کرتے ہیں۔
انہوں نے شہر میں گاڑیاں موٹرسائیکلیں اور رکشے چلانے والے لوگ پولیس کی طرف سے ہاتھ سے کئے گئے اشارے پر نہیں رُکتے، اگر ٹریفک کے اشارے بحال ہوں تو سرخ بتی کی خلاف ورزی پر ڈرائیور کو جرمانہ کیا جا سکے گا۔
صوبائی دارالحکومت میں گزشتہ ماہ کے دوران ایک ٹریفک پولیس کے ہیڈ کانسٹیل حاجی عطا ءاللہ کو بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے مبینہ طور پر اپنی گاڑی سے نشانہ بنا کر ہلاک کردیا تھا۔ ہیڈ کانسٹیل شہر کے وی آئی پی روٹ پر ٹریفک کے اشارے نہ ہونے کے باعث سڑک کے درمیان میں کھڑے ہو کر ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق، گزشتہ ایک عشرے کے دوران، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور حب میں بھی ٹریفک پولیس کے دو درجن سے زائد اہلکار اسی طرح زد میں آ چکے ہیں۔