امریکی محکمۂ خارجہ نے بدھ کے روز بتایا ہے کہ اس نے پاکستان کے ساتھ F-16 طیاروں کی مرمت کے 45 کروڑ ڈالر کے ایک معاہدے کی منظوری دی ہے۔
امریکی ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے یہ منظوری امریکی کانگریس کو بدھ کے روز ہی بھجوائی ہے۔تاہم اس معاہدے کی حتمی منظوری امریکی کانگریس دے گی۔
محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے موجودہ ایف سولہ طیاروں کے فلیٹ کی مرمت اور سپورٹ فراہم کی جائے گی۔ اس معاہدے میں پاکستان کو کسی نئے قسم کے ہتھیار کی صلاحیت فراہم نہیں کی جائے گی۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مقاصد اور اس کی خارجہ پالیسی کے لیے معاون ثابت ہوگا۔ اور پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے میں بھی مدد دے گا۔
امریکہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی مرمت کے معاہدے سے علاقائی طاقت کے توازن کو فرق نہیں پڑے گا۔
پاکستان کی واشنگٹن ڈی سی میں واقع سفارت خانے کی پریس اتاشی اور میڈیا ترجمان ملیحہ شاہد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس پیش رفت کو خوش آئند کہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اور اس جانب مزید اقدامات سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان جامع تعلقات قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک نیولائن انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر انالٹیکل ڈیولپمنٹ ڈاکٹر کامران بخاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ معاہدہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے عمران خان حکومت کے ساتھ رابطہ کاری کرنے سے گریز کیا۔ جس طریقے سے اب رابطہ کاری ہو رہی ہے ایسے پہلے نہیں ہو رہی تھی۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ امریکہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی وجوہات کی بنا پر امریکہ پر رجیم بدلنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
ان کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ پردے کے پیچھے وائٹ ہاؤس اور موجودہ حکومت کے درمیان طے پایا ہے۔ انہوں نے قیاس ظاہر کیا کہ شاید اس میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار بھی ہو۔
واشنگٹن میں ہی قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے بھی کامران بخاری سے اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "اس معاہدے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران پاکستان امریکہ تعلقات میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک قسم کے نئے سیکیورٹی تعاون پر بات ہو رہی ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک نیا رخ ملے گا۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی مرمت سے متعلق پیش رفت بہت اہم ہے، کئی برسوں سے امریکہ کی جانب سے فوجی امداد پاکستان کے لیے بند ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی یہ فیصلہ لیا تھا۔
اس معاہدےپر بات کرتے ہوئے کامران بخاری نے بتایا کہ پاکستان کے ایف سولہ طیارے خاصے پرانے ہیں اور ان طیاروں کی مرمت درکار ہے، ان میں فاضل پرزوں کی ضرورت ہے اور کچھ اپ گریڈ کی ضرورت بھی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ میں بنے طیارے ہیں اس لیے پاکستان ان کی مرمت ایک حد تک ہی کر سکتا ہے۔
مائیکل کوگل مین نے کہا کہ پاکستان اس وقت بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل سے گزر رہا ہے اور ساتھ ہی سیلاب کی وجہ سے معاشی صورتِ حال اور بھی خطرناک ہوچکی ہے۔ تو یہ سوال بنتا ہے کہ وہ یہ ادائیگی کیسے کرے گا؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے کیسے تکمیل پائے گا یہ دیکھنا پڑے گا۔
کامران بخاری نے اس معاہدے کی نوعیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "اگر یہ امداد ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے بدلے پاکستان امریکہ کو کیا دے گا؟"
پاکستان کی اندرونی سیاست پر اس معاہدے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ "اس معاہدے سے عمران خان کے اس بیانیے کو تقویت ملے گی کہ امریکہ نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم )کے ساتھ رابطہ کاری کرنے لیے انہیں حکومت سے ہٹایا۔خصوصاً جب عمران خان نے اس بات پر بار بار زور دیا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ کسی بھی فوجی معاملے میں تعاون کے لیے تیار نہیں ہیں۔"
علاقائی سیاست پر اس معاہدے کے اثرات کے بارے میں کوگل مین کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں بھارت اور امریکہ کے فوجی تعاون میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے نقطۂ نظر سے اس معاہدے کا ہونا کچھ اچھا شگون نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ آیا یہ معاہدہ کانگریس میں منظور ہو سکے گا؟ اس پر مائیک کوگل مین کا کہنا تھا کہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد کیپٹل ہل میں پاکستان پر تنقید کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے ان کا خیال تھا کہ اس وقت ایسا نہیں لگتا کہ کانگریس پاکستان کو کسی بڑی امداد کی منظوری آسانی سے دے گی۔
پاکستان کی دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے جمعرات کو اسلام آ باد میں معمول کی بریفنگ کے دوران امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ F-16 طیاروں کی مرمت کے 45 کروڑ ڈالر کے ایک مجوزہ معاہدے کی منظوری پر تبصرہ کرتےہوئے اسے درست سمت میں اقدام قرار دیا۔
عاصم افتخار نے وائس امریکہ کے سوال کے جواب پر مزید کہا کہ یہ اقدام پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنے میں مدد ملے گی جب باہمی تعلقات کو مثبت راہ پر گامزن کرنے کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان رابطے بھی جاری ہیں۔