پاکستان کے معروف ناول نگار اور کالم نویس محمد حنیف کی کتاب 'پھٹے آموں کا کیس' چھپی تو گیارہ سال پہلے تھی لیکن ان کی کتاب اور اس کا اردو ترجمہ اب مبینہ طور پر مختلف کتابوں کی دکانوں سے اٹھا لیا گیا ہے۔
کتابیں اٹھائے جانے کا تذکرہ محمد حنیف نے گزشتہ رات اپنی ٹوئٹس میں کیا تھا۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد حنیف نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والی ایک ایجنسی نے ان کے ناشر مکتبہ دانیال پر مبینہ طور پر چھاپا مارا۔ انہوں نے کہا کہ وہاں سے نہ صرف ان کی کتابیں اٹھا لی گئیں بلکہ ان کے ناشر سے ان دکانوں کی فہرست بھی لی گئی جہاں کتابوں کا اسٹاک موجود تھا۔
ان کے بقول اس کے بعد مختلف کتابوں کی دکانوں پر بھی چھاپے مارے گئے۔
محمد حنیف کا کہنا تھا کہ انہیں اور ان کی کتاب کے اردو مترجم سید کاشف رضا کو کچھ دن پہلے پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق کی طرف سے ایک قانونی نوٹس موصول ہوا تھا۔
محمد حنیف نے بتایا کہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ان کے ناول 'پھٹے آموں کا کیس' میں ان کے والد کے وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی لکھاری کی تحریر اگر سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھی جائے تو اس سے غلط تاثر پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی کتاب کے اردو مترجم سید کاشف رضا نے بھی کہا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ فکشن کی کتاب ہے۔ اگر اس میں درج ہر واقعے کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کتاب لکھنے والے کے ساتھ زیادتی ہے۔
محمد حنیف کی کتاب 'کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز' پہلی بار 2008 میں شائع ہوئی تھی جس میں جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کو موضوع بناتے ہوئے 80 کی دہائی میں پاکستان کے مجموعی سیاسی منظر نامے کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔
اس کتاب کو سال 2009 میں کامن ویلتھ بُک پرائز میں پہلا انعام بھی مل چکا ہے۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ ان کے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی کتاب کی فروخت پر پاکستان میں کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ ایسے میں کتاب کو اچانک مبینہ طور پر غائب کیا جانا بطور ادیب ان کے لیے ذہنی دباؤ کی وجہ بن رہا ہے۔
اس معاملے پر ناول نگار اور کالم نویس آمنہ مفتی نے کہا ہے کہ کتابوں اور ادیبوں پر پابندی لگانا کوئی نیا عمل نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آج سے 70 برس پیچھے چلے جائیں تو سعادت حسن منٹو کو مقدموں کا سامنا تھا۔ قرۃالعین حیدر کو اپنی شہرۂ آفاق کتاب 'آگ کا دریا' لکھنے کے بعد اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ یہ ہے اردو زبان کے ناول نگار کم ہونے لگے ہیں۔ آمنہ مفتی کے بقول 11 سال پہلے چھپنے والی کتاب آج پابندی کی صرف یہی وجہ نظر آتی ہے کہ اب یہ کتاب اردو زبان میں موجود ہے۔ جس کے قارئین انگریزی زبان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔
ملک میں ادیبوں کی تنظیم کسی بھی پابندی کے بارے میں کیا کر سکتی ہے؟ اس سوال پر آمنہ مفتی نے کہا کہ ادیب کا ساتھ صرف سول سوسائٹی یا اس کا قاری دے سکتا ہے۔
محمد حنیف کا کہنا ہے کہ ان کی کتاب کا مبینہ طور پر غائب کیا جانا ایک غیر قانونی عمل ہے۔ ان کے بقول جہاں تک مقدمے کا تعلق ہے ان کی قانونی ٹیم اس کا جواب بھی تیار کر رہی ہے۔ اگر انہیں عدالت میں اپنی صفائی دینے کے لیے پیش ہونا پڑا تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
دنیا بھر میں ادبی ناقدین اس خیال کے حامی ہیں کہ کسی بھی دور میں لکھا جانے والا ادب اس زمانے کا عکاس ہوتا ہے۔ ان کتابوں کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب دہائیوں اور صدیوں بعد قارئین ان کتابوں کی روشنی میں گزرے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ادیب یہی سمجھتے ہیں کہ کسی لکھنے والے پر پابندی آئندہ نسلوں کے ساتھ زیادتی سے کم نہیں ہے۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ کراچی میں پیش آیا تھا جب اکتوبر کے آخری ہفتے میں آرٹ کا ایک نمونہ بھی مبینہ طور پر زبردستی ہٹا دیا گیا تھا۔ فریئر ہال میں رکھے گئے اس نمونے میں کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ پر تنقید کرتے ہوئے بہت سے قبریں بنائی گئی تھیں۔
اس واقعے کے خلاف سول سوسائٹی کی طرف سے کافی مزاحمت بھی دیکھنے میں آئی، لیکن آرٹ کا نمونہ واپس نہیں رکھا جا سکا تھا۔