|
امریکہ کے اسکولوں میں جہاں مسلمان طلبہ کی تعداد کم ہے تاہم کچھ علاقوں میں قائم اسکولوں میں مسلم طلبہ کی بڑی تعداد میں موجودگی کے سبب ان کی انتظامیہ کو ماہِ رمضان میں ضروریات سے متعلق مزید توجہ دینا پڑتی ہے جس کے دوران یہ طلبہ نمازِ فجر سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیئربورن کی ایک لاکھ 10 ہزار آبادی میں سے نصف عرب نسل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں پبلک اسکولوں کے اساتذہ اور عملہ رمضان میں روزے رکھنے والے طلبہ کے لیے چیزوں کو آسان بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ڈیئربورن اسکولوں کے ترجمان ڈیوڈ مسٹونن کا کہنا ہے کہ جب تک کہ اسکولوں کی حاضری میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، وہ طلبہ کو اپنے طور اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ڈیوڈ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسکول میں روزہ رکھنے والے طلبہ کے لیے لنچ کے اوقات کے دوران دیگر مقامات یا سرگرمیاں تلاش کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود روزہ رکھنے والے ان طلبہ کو اسکول کی تمام اسائنمنٹس مکمل کرنے ہوتے ہیں۔
امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر سینٹ پال میں واقع ایسٹ افریقین ایلیمنٹری میگنیٹ اسکول کی پرنسپل عبدی سلام آدم کا کہنا تھا کہ ان کے اسکول میں روزہ دار طلبہ کے لیے لائبریری میں علیحدہ جگہ مختص ہے جہاں وہ بریک کے دوران دیگر سرگرمیاں جیسے کتابیں پڑھنا جاری رکھ سکتے ہیں۔
پرنسپل کا کہنا تھا کہ 220 طلبہ پر مشتمل اسکول، سینٹ پال اسکول سسٹم کے ایک حصے کے طور پر گزشتہ موسم خزاں میں کھولا گیا تھا اور اسی کے نصاب پر عمل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اسکول کا مقصد صومالیہ اور دیگر مشرقی افریقی ممالک کے ساتھ ثقافتی اور لسانی روابط کو تقویت دینا بھی ہے۔
پرنسپل کے بقول وہاں لگ بھگ 90 فی صد طلبہ صومالی مسلمان ہیں۔
آدم جو کہ لگ بھگ پچھلے 30 برس سے کام کر رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے اسٹاف کو کہا ہے کہ رمضان کی پابندی طلبہ کی دیکھ بھال کے مجموعی مقصد کے مطابق ہے۔ ان کے بقول تمام ضروریات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ایسے اسکول جو مسلم روایات سے کم آشنا ہیں، ان کے لیے وسائل دستیاب ہیں۔
مثال کے طور پر امریکی ریاست کیلی فورنیا میں قائم اسلامک نیٹ ورکس گروپ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو رمضان اور مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت کے بارے میں آن لائن معلومات فراہم کرتا ہے۔
اس گروپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ماہا الگنیدی کا کہنا ہے کہ بہت سے اسکول اسلام اور ان کی چھٹیوں سے متعلق زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ زیادہ معلومات نہیں رکھتے تو وہ طلبہ کو رہائش سے متعلق زیادہ معلومات فراہم نہیں کر سکتے۔ جب تک کہ وہ اس کے بارے میں جانیں ، اس عمل میں والدین کو بھی شریک ہونا ہو گا۔
ماہا کا مزید کہنا تھا کہ روزہ رکھنے والے طلبہ کو جم کلاس کے دوران سخت سرگرمیوں سے استثنا حاصل ہونا چاہیے۔ رمضان کے بعد عید الفطر کی وجہ سے غیر حاضر ہونے پر انہیں اپنی اسائنمنٹس بعد ازاں جمع کرانے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے حاصل معلومات شامل کی گئی ہیں۔