کراچی میں جمعرات کی صبح رینجرز ہیڈ کواٹرز نارتھ ناظم آباد بلاک بی پر خود کش حملے نے شہریوں کو مزید خوفزدہ کردیا ہے۔ ان کی نظر میں وہ تمام علاقے جہاں رینجرز کے ہیڈکوارٹر یا قیام گاہیں ہیں وہ رہائشیوں کے لئے ’سیکورٹی رسک‘ بن گئے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ جمعرات کے حملے نے رینجرز کی اپنی سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں اور چونکہ رینجرز کی قیام گاہیں عام آبادی کے درمیان اور گنجان آباد علاقوں میں واقع ہیں لہذا اس سے جڑے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
میٹرک بورڈ آفس نارتھ ناظم آباد کے رہائشی محمد شاہد نے ’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہٴ خیال میں کہا کہ، ’کراچی میں گزشتہ 17سالوں سے رینجرز تعینات ہیں اور شہر کے کم از کم 20علاقوں میں ان کی قیام گاہیں ہیں۔ ان علاقوں میں کلفٹن، ملیر ہالٹ، نارتھ ناظم آباد، گلبرگ اور مین یونیورسٹی روڈ وغیرہ شامل ہیں۔ واقعات شاہد ہیں کہ اب تک سیکورٹی فورسز یا رینجرز پر جتنے بھی حملے ہوئے تھے وہ عام شہری علاقوں سے ہٹ کر تھےیا کم از کم ان سے شہریوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ مگر، جمعرات کا حملہ شہری آبادیوں میں ہیڈکوارٹرز کی موجودگی کے لئے خطرے کی گھنٹی معلوم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کو اس طرف فوری توجہ دینا ہوگی۔‘
کراچی میں رینجرز کا قیام
کراچی میں رینجرز کو 17یا 18سال پہلے نسلی اور لسانی فسادات پر قابو پانےاور امن وامان کے قیام کے لیے پولیس کی مدد کی غرض سے صوبائی حکومت کے خرچ پر بلایا گیا تھا، جبکہ کراچی کی 2 جامعات، جامعہ این ای ڈی اور جامعہ کراچی میں طلبہ تنظیموں کے درمیان آئے دن ہونے والے فسادات کو روکنے کی ذمہ داری بھی ابتدا میں پاکستان رینجرز کو ہی دی گئی تھی۔ اس وقت کراچی یونیورسٹی کا شیخ زید سینٹر رینجرز کا ہیڈکوراٹر ہوا کرتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد جب یورنیورسٹی میں ہیڈکوارٹر کی موجودگی پرسیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے اور سیاسی دباوٴ بڑھا تو یہ ہیڈکوارٹر جناح کورٹ منتقل کردیا گیا، جہاں یہ آج بھی موجود ہے۔
رینجرز ناکام ۔۔۔؟
’کراچی میں عرصے سے جاری بدامنی کو ختم کرانے میں درحقیقت رینجرز بھی ناکام رہی ہے۔‘ یہ کہنا ہے کراچی یونیورسٹی کے ایک ملازم برہان الدین کا۔ ان کاکہنا ہے کہ، ’پرتشدد واقعات، بھتہ خوری، فائرنگ اور دیگر واقعات رینجرز کی موجودگی میں بھی عرصے سے جاری ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان رینجرز تمام ترکوششوں کے باوجود قیام امن میں ناکام رہی ہے۔‘
رینجرز کو خصوصی اختیارات
ایک بزرگ شہری یونس کریم کے مطابق صوبائی حکومت نے حالیہ مہینوں میں رینجرز کو پولیس کی طرح خصوصی اختیارات بھی دیئے جس کے تحت رینجرز کو گرفتاریاں کرنے اور مشتبہ افرادیا جرائم میں ملوث افراد سے پوچھ گچھ کرنے کے اختیارات بھی شامل ہیں،دیئے گئے اور ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے پولیس کو مطلع کیے بغیر آپریشن کا اختیار بھی تقویض کیا گیا، لیکن ابھی تک اس کے خاظر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
پاکستان رینجرز کا موقف
صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت رینجرز کو تلاشی لینے اور ملزمان کی گرفتار ی کے لئے چھاپے مارنے کے خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، جبکہ ہنگامی صورتحال میں اسے اسلحہ استعمال کرنے کا بھی اختیار ہے، لیکن پھر بھی رینجرز فیصلہ کن کارروائی کیوں نہیں کرسکے؟ اس حوالے سے پاکستان رینجرز کا موقف جاننے کے لئے وی او اے کے نمائندے نے حکام سے رابطہ بھی کیا لیکن آج کی ہنگامی صورتحال کے سبب تمام حکام اپنی مصروفیت سے وقت نہیں نکال سکے۔
تاہم، حالات و واقعات گواہ ہیں کہ خصوصی اختیارات کے تحت لانڈھی، ملیر، پہلوان گوٹھ، لیاری، ڈالمیا، صفوراگوٹھ، بفرزون، نارتھ کراچی، اورنگی ٹاون اور دیگر علاقوں میں رینجرز نے ٹارگٹڈ آپریشن بھی کیے ہیں اور ان آپریشنز میں رینجرز نے بڑی تعداد میں ملزمان کو حراست میں بھی لیا اور ناجائز اسلحہ بھی برآمد کیا۔ لیکن، ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی کے حالات ایک دو دن میں ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ حالات پر قابو پانے میں رینجرز کو مزید کچھ مدت لگ سکتی ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ جمعرات کے حملے نے رینجرز کی اپنی سیکورٹی پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں اور چونکہ رینجرز کی قیام گاہیں عام آبادی کے درمیان اور گنجان آباد علاقوں میں واقع ہیں لہذا اس سے جڑے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
میٹرک بورڈ آفس نارتھ ناظم آباد کے رہائشی محمد شاہد نے ’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہٴ خیال میں کہا کہ، ’کراچی میں گزشتہ 17سالوں سے رینجرز تعینات ہیں اور شہر کے کم از کم 20علاقوں میں ان کی قیام گاہیں ہیں۔ ان علاقوں میں کلفٹن، ملیر ہالٹ، نارتھ ناظم آباد، گلبرگ اور مین یونیورسٹی روڈ وغیرہ شامل ہیں۔ واقعات شاہد ہیں کہ اب تک سیکورٹی فورسز یا رینجرز پر جتنے بھی حملے ہوئے تھے وہ عام شہری علاقوں سے ہٹ کر تھےیا کم از کم ان سے شہریوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ مگر، جمعرات کا حملہ شہری آبادیوں میں ہیڈکوارٹرز کی موجودگی کے لئے خطرے کی گھنٹی معلوم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کو اس طرف فوری توجہ دینا ہوگی۔‘
کراچی میں رینجرز کا قیام
کراچی میں رینجرز کو 17یا 18سال پہلے نسلی اور لسانی فسادات پر قابو پانےاور امن وامان کے قیام کے لیے پولیس کی مدد کی غرض سے صوبائی حکومت کے خرچ پر بلایا گیا تھا، جبکہ کراچی کی 2 جامعات، جامعہ این ای ڈی اور جامعہ کراچی میں طلبہ تنظیموں کے درمیان آئے دن ہونے والے فسادات کو روکنے کی ذمہ داری بھی ابتدا میں پاکستان رینجرز کو ہی دی گئی تھی۔ اس وقت کراچی یونیورسٹی کا شیخ زید سینٹر رینجرز کا ہیڈکوراٹر ہوا کرتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد جب یورنیورسٹی میں ہیڈکوارٹر کی موجودگی پرسیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے اور سیاسی دباوٴ بڑھا تو یہ ہیڈکوارٹر جناح کورٹ منتقل کردیا گیا، جہاں یہ آج بھی موجود ہے۔
رینجرز ناکام ۔۔۔؟
’کراچی میں عرصے سے جاری بدامنی کو ختم کرانے میں درحقیقت رینجرز بھی ناکام رہی ہے۔‘ یہ کہنا ہے کراچی یونیورسٹی کے ایک ملازم برہان الدین کا۔ ان کاکہنا ہے کہ، ’پرتشدد واقعات، بھتہ خوری، فائرنگ اور دیگر واقعات رینجرز کی موجودگی میں بھی عرصے سے جاری ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان رینجرز تمام ترکوششوں کے باوجود قیام امن میں ناکام رہی ہے۔‘
رینجرز کو خصوصی اختیارات
ایک بزرگ شہری یونس کریم کے مطابق صوبائی حکومت نے حالیہ مہینوں میں رینجرز کو پولیس کی طرح خصوصی اختیارات بھی دیئے جس کے تحت رینجرز کو گرفتاریاں کرنے اور مشتبہ افرادیا جرائم میں ملوث افراد سے پوچھ گچھ کرنے کے اختیارات بھی شامل ہیں،دیئے گئے اور ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے پولیس کو مطلع کیے بغیر آپریشن کا اختیار بھی تقویض کیا گیا، لیکن ابھی تک اس کے خاظر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
پاکستان رینجرز کا موقف
صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت رینجرز کو تلاشی لینے اور ملزمان کی گرفتار ی کے لئے چھاپے مارنے کے خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، جبکہ ہنگامی صورتحال میں اسے اسلحہ استعمال کرنے کا بھی اختیار ہے، لیکن پھر بھی رینجرز فیصلہ کن کارروائی کیوں نہیں کرسکے؟ اس حوالے سے پاکستان رینجرز کا موقف جاننے کے لئے وی او اے کے نمائندے نے حکام سے رابطہ بھی کیا لیکن آج کی ہنگامی صورتحال کے سبب تمام حکام اپنی مصروفیت سے وقت نہیں نکال سکے۔
تاہم، حالات و واقعات گواہ ہیں کہ خصوصی اختیارات کے تحت لانڈھی، ملیر، پہلوان گوٹھ، لیاری، ڈالمیا، صفوراگوٹھ، بفرزون، نارتھ کراچی، اورنگی ٹاون اور دیگر علاقوں میں رینجرز نے ٹارگٹڈ آپریشن بھی کیے ہیں اور ان آپریشنز میں رینجرز نے بڑی تعداد میں ملزمان کو حراست میں بھی لیا اور ناجائز اسلحہ بھی برآمد کیا۔ لیکن، ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی کے حالات ایک دو دن میں ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ حالات پر قابو پانے میں رینجرز کو مزید کچھ مدت لگ سکتی ہے۔