پاکستان میں سی آئی اے کے مبینہ اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد واشنگٹن کے تجزیہ کاروں کے مطابق پاک امریکہ تعلقات میں گزشتہ چند ماہ سے موجود تناو کم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طویل مدت میں اس پارٹنرشپ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ دونو ں ملکوٕں کا دہشت گردی کے خطرے اس کےذرائع کے خلاف کارروائی کے طریقہ کار پر اتفاق رائے ہو۔ کیونکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
اس سال جنوری میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کی ہلاکت اور گرفتاری کے بعدامریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو شدید دھچکا پہنچا تھا ۔ صدر اوباما اور اعلیٰ امریکی عہدیدار پاکستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ امریکی اہلکار کا سفارتی استثنیٰ قبول کیاجائے جبکہ پاکستان میں اس کی شدید مخالفت کی جا رہی تھی ۔ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں مزید اضافہ ہوگا۔
ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کی اسکالر لیسا کرٹس کا کہناہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد سے مذہبی جماعتیں اس کی رہائی کے خلاف مظاہرے کر رہی تھیں ۔ ہمیں تشویش ہے کہ اب امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوگا اور حکومت پر ویسے ہی دباؤ بڑھے گا۔ جیسے اسلام آباد میں لال مسجد پر فوج کی کارروائی کے بعد ہوا تھا۔ اس میں مذہبی جماعتوں نے مظاہرے کئے مگر عام لوگ زیادہ مشتعل نہیں تھے۔ اس واقعے میں دیکھنا ہوگا کہ آیا فوج مذہبی جماعتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ردعمل کی شدت کو کم کرسکتی ہے یا نہیں۔
واشنگٹن کے ہیریٹج فاؤنڈیشن سے منسلک جنوبی ایشیا ئی امور کی ماہر لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے حساس اداروں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ریمنڈ ڈیوس کے علاوہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے بھی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے دونوں ممالک کے حساس اداروں کے درمیان تناؤ پیدا ہو رہا تھا۔ اس کی ایک وجہ پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی کے لشکر طیبہ کے ساتھ مبینہ روابط ہیں،جن پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے ۔ میرے خیال میں سی آئی اے کے اسلام آباد میں سٹیشن چیف کی شناخت عام ہونے کے بعد اس کی امریکہ واپسی اور پاکستان کی جانب سے عدم تعاون کے بعد سی آئی اے کا لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اپنے طور پر تحقیقات کا نیٹ ورک بنانا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی امریکی عدالت میں طلبی ، جن سے پاکستان ناخوش تھا ، ایسے واقعات تھے جن سے دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے جو ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر سامنے آئے ۔
لیزا کرٹس کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کا دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف تعاون تب ہی جاری رہ سکے گا جب دونوں خطے میں پائے جانے والے خطرات کی حقیقی وجہ پر متفق ہونگے ۔ ان کے خٰیال میں دونوں ملکوں کے درمیان اعتمادقائم کرنے کے لئے پاکستان کو کچھ عسکریت پسند تنظیموں کے متعلق اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا ۔
میرے خیال میں دونوں کو اپنے تعلقات اور تعاون کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر دونوں ممالک اس بات پر متفق نظر نہیں آتے کہ پاکستان میں خطرہ کیا ہے۔ امریکہ لشکر طیبہ کی عالمی سطع پر دہشت گردی کی صلاحیت کے خطرے کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ مگرپاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ اگر لشکر طیبہ سےپاکستان کو کوئی خطرہ نہیں تو اس کے خلاف کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اس لئے ڈیوس کی رہائی سے وقتی طور پر تو تناؤ کم ہو گا مگر جب تک پاکستان لشکر طیبہ کے بارے میں اپنی سوچ نہیں بدلتا دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ موجود رہے گا۔
جب کہ پاکستانی حکومت کا موقف یہ رہا ہے کہ پاکستان کسی ایسے گروہ کی پشت پناہی نہیں کرتا جو دہشت گردی میں ملوث ہو۔ بلکہ پاکستان خود ایسے گروپس کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔