الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے کراچی ڈویژن میں 23 اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ایک مرتبہ پھر ملتوی ہونے کا معاملہ سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے کہ شہر میں ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات روک کر لوگوں کو بنیادی مسائل کے حل کے لیے قیادت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں تیسری بار ہونے والا یہ التوا حکومتِ سندھ کی اس درخواست پر کیا گیا جس میں صوبائی حکومت نے انتخابات میں سیکیورٹی کے لیے ضرورت کے مطابق پولیس اہلکاروں کی دستیابی سے معذرت کی تھی۔کراچی میں اس سے قبل 24 جولائی اور پھر 28 اگست کو بارشوں کے باعث بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے گئے تھے۔
حکومتِ سندھ کے مطابق کراچی کے 70 فی صد پولنگ اسٹیشنز حساس جب کہ 30 فی صد انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں۔ جہاں سیکیورٹی پلان کے مطابق حساس پولنگ اسٹیشنز پر چار اور انتہائی حساس پر آٹھ اہلکار کے علاوہ ایک ہزار نجی سیکیورٹی گارڈز تعینات ہوں گے۔
حکام کے مطابق اسی طرح شہر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے 41 ہزار 293 پولیس اہلکاروں کی ضرورت ہے۔ تاہم کراچی پولیس کے پاس اس وقت 22 ہزار 507 پولیس اہلکار دستیاب ہیں۔
یوں دیگر اضلاع سے 14 ہزار پولیس اور سات ہزار ریزرو پولیس کے اہلکاروں کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم حالیہ سیلاب کے باعث بے گھر افراد کی مدد اور سیکیورٹی کی وجہ سے دیگر اضلاع سے اہلکاروں کی طلبی فی الحال ممکن نہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی کہ بلدیاتی انتخابات کو کم از کم تین ماہ کے لیے ملتوی کیا جائے تاکہ صورتِ حال بہتر ہونے پر پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ایک جانب پاکستان پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن اس التوا کی وجہ صوبے میں تاریخی بارشوں اور پھر اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو قرار دے رہے ہیں وہیں اپوزیشن جماعتیں، سیاسی مبصرین و تجزیہ کار بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنے کے پیچھے سیاسی حکمتِ عملی اور سیکیورٹی کی کمی کو بہانہ قرار دے رہے ہیں اور اس پر صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
'پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے سیاسی تحفظات'
سینئر صحافی اور کراچی کی سیاست کو قریب سے جاننے والے مجاہد بریلوی کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں صوبے میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور وفاق میں اس کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا گٹھ جوڑ ہے اور وہ میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔
ان کے بقول یہ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس وقت بلدیاتی انتخابات ہونا ان کے لیے سیاسی فائدے کا موجب نہیں ہوگا بلکہ اس سے انہیں نقصان ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں اور پھر 16 اکتوبر کو قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ "اس وقت عوام میں عمران خان کا بیانیہ بہرحال مقبول ہوا ہے، چاہے اس بیانیے میں وزن ہے یا نہیں۔''
مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ اس وقت شہر کو جس قدر بلدیاتی قیادت کی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ کراچی کی سڑکیں تباہ حال ہیں۔ بارشوں کے بعد صورتِ حال مزید خراب ہو چکی ہے اور بلدیاتی ادارے عملاً غیرفعال ہیں۔ لیکن حکمران اتحاد عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہوکر بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کررہا ہے۔
ان کے بقول ایم کیو ایم کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 239 اور 245 جہاں ماضی میں ایم کیو ایم کامیاب ہوتی آئی ہے وہاں سے تحریک انصاف کی دوسری بار کامیابی متحدہ کے اُن کے بقول زوال کی داستان سنا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پیپلزپارٹی نے این اے 237 پر تحریک انصاف پر کامیابی حاصل کی ہے لیکن وہ عبدالحکیم بلوچ کی نشست ہے، جو انہوں نے 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر جیتی تھی اور 2016 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر۔ تاہم 2018 میں وہ تحریک انصاف کے امیدوار جمیل احمد سے ہار گئے تھے۔
'بلدیاتی انتخابات کا التوا بدقسمتی ہے'
ادھر سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزمان کا کہنا ہے کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کراچی جیسے شہر میں ایک آئینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سیکیورٹی کی کمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر میں پولیس کے علاوہ امن و امان کے لیے رینجرز بھی موجود ہے جب کہ حالات خراب ہونے کی صورت میں حکومت فوج کو طلب کرنے کی بھی مجاز ہے۔
اس کے علاوہ کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان ریلوے، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کئی ایسے اداروں کے پاس اپنی فورس بھی ہے، جن کی ایک یا دو روز کے لیے اضافی ڈیوٹی لگانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
فہیم الزمان کہتے ہیں کہ اس سب کے بعد یہ تصور کیوں کرلیا گیا کہ بلدیاتی انتخابات میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ جمہوری عمل اور لوگوں کے جمہوری مزاج پر اعتبار نہیں کیا جا رہا ہے۔
ان کے خیال میں یہ صرف بہانے ہیں اور اس کا مقصد اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے سے روکنا ہے۔ فہیم الزمان کے مطابق یہ صرف بدقسمتی ہے کہ شہر میں ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات روک کر لوگوں کو بنیادی مسائل کے حل کے لیے قیادت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
ادھر الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون شنواری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ہر ممکن کوشش کی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوں۔ لیکن سیکیورٹی فورسز کی عدم دستیابی کی وجہ سے مجبوری میں انتخابات ملتوی کرنا پڑے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کے لیے سب سے مقدم ووٹرز کی سیکیورٹی ہے اور کمیشن پرامن ماحول میں الیکشن کرانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ داخلہ کو فوج اور رینجرز کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے تحریری طور پر آگاہ کیا تھا۔
ہارون شنواری کے مطابق وزارتِ داخلہ نے کہا کہ پولیس کی کمی کے پیش نظر فوج اور رینجرز پولنگ اسٹیشنز پر جامد ڈیوٹی ادا نہیں کرسکتی۔ البتہ کوئیک رسپانس فورس کے طور پر یہ فورسز مہیا ہوں گی۔
الیکش کمیشن کا کہنا ہے کہ اس بارے میں 15 روز بعد دوبارہ کمیشن کا اجلاس ہوگا جس میں صوبائی حکومت اور امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار اداروں سے رائے لی جائے گی۔
45 برس میں صرف چھ بلدیاتی انتخابات
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ 45 برسوں میں صرف چھ بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد سال 14 سال میں صرف ایک بار سال 2015 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے کیوں کہ ایسا نہ کرنے پر صوبائی حکومتوں کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔
ان کے بقول صرف سندھ ہی نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تحریک انصاف کی برسرِاقتدار حکومت نے بھی بلدیاتی انتخابات سے مسلسل راہ فرار اختیار کر رکھی ہے اور وہاں چار برسوں سے بلدیاتی ایکٹ نہیں بن پایا ہے۔ جب کہ آئندہ چھ ماہ میں وہاں بلدیاتی انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں کم از کم بلدیاتی قانون بننے کے بعد کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے سوا دیگر ڈویژنز میں انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب میں برسرِ اقتدار جماعتیں اس کشمکش میں بھی ہیں کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات سے قبل قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لیے ماحول بن سکتا ہے۔ ایسے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرکے سیاسی جماعتیں اپنی مقامی قیادت میں کسی کو ٹکٹ دے کر یا نہ دے کر نئی تفریق پیدا کرنے کی مجاز نہیں ہوسکتیں۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا مؤقف
ایڈمنسٹریٹر کراچی اور سندھ حکومت کے ترجمان یہ اشارہ دے چکے تھے کہ 23 اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مختلف نوعیت کے انتظامی مسائل کا سامنا ہے جن میں سب سے دیگر اضلاع سے پولیس اہلکاروں کی بلدیاتی انتخابات کے دوران تعیناتی ہے۔
وزیر بلدیات سندھ ناصر شاہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ صوبائی حکومت نیک نیتی کے ساتھ صوبے میں بلدیاتی نظام پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے لیکن اس وقت سیلاب کی صورتِ حال سے پیدا شدہ مشکلات اس میں آڑے آرہی ہیں۔
دوسری جانب اس حوالے سے ایم کیو ایم کا مؤقف رہا ہے کہ انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کے حکم کے تحت بلدیاتی نظام میں بہتری لائی جائے، اختیارات حقیقی طور پر نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں۔
ایم کیو ایم کے مطابق بلدیاتی ادارے جیسا کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، صفائی ستھرائی کا نظام اور دیگر ادارے بھی بلدیاتی اداروں کے ماتحت کیے جائیں، اس کے بعد الیکشن کرائے جائیں۔
سپریم کورٹ نے اس سے متعلق درخواست مسترد کر دی تھی جس میں عدالت سے شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات ملتوی کرکے پہلے بلدیاتی نظام کو بہتر بنانے کی استدعا کی گئی تھی۔