قازقستان کو ان دنوں اپنی آزادی کی تین دہائیوں کے دوران شدید ترین احتجاجی مظاہروں کا سامنا ہے۔
قازقستان کے سب سے بڑے شہر الماتی سے موصول ہونے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری سیکیورٹی فورسز نے، جنھیں روس کی حمایت یافتہ فوجیوں کی مدد حاصل ہے، مظاہرین پر گولیاں چلائی ہیں، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں، ایسے میں جب اس سابق سوویت جمہوریہ میں کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے۔
الماتی کی سڑکوں پر بنائی گئی ایک وڈیو رپورٹ میں شہر کے 'ریپبلکن اسکوائر' پر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فائر کھولتے دیکھا جا سکتا ہے، جہاں کچھ بکتربند گاڑیاں نمایاں ہیں۔ مظاہرین کے گروہ کے ایک نمائندے نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ اسکوائر پر موجود افراد میں سے زیادہ تر غیر مسلح تھے۔
قازق پولیس کی اطلاع کے مطابق احتجاج کرنے والے درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور گزشتہ روز 2000سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ پولیس کے متعدد اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے ایک پولیس اہلکار کا سر دھڑ سے الگ کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق قازقستان میں عدم استحکام کی صورت حال اس کے دو طاقت ور پڑوسیوں، چین اور روس کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ کیوں کہ قازقستان اپنا زیادہ تر تیل چین کو فروخت کرتا ہے اور اس کا شمار روس کے اسٹرٹیجک اتحادیوں میں بھی ہوتا ہے۔
ابتدائی طور پر قازقستان میں گاڑیوں کے ایندھن کی قیمت میں اچانک اضافے کے باعث ملک کے دور دراز مغربی حصے میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ لیکن بعد ازاں یہ احتجاج درجن سے زائد شہروں میں پھیل گیا۔
'اے پی' کے مطابق مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں نے قازقستان میں قائم مطلق العنان حکومت کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار کر لی ہے۔
ملک کے صدر قاسم جومارت توکایوف نے بدھ کے روز مظاہرین کو مطمئن کرنے کے لیے پہلے تو پوری حکومت برطرف کر دی، لیکن دن کے اختتام تک انہوں احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینا شروع کر دیا۔
بعد ازاں صدر قاسم نے حتجاجی لہر پر قابو پانے کے لیے روس کی زیرِ قیادت دفاعی اتحاد ’کولیکٹیو سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن‘ (سی ایس ٹی او) سے مدد کی اپیل کی۔
سی ایس ٹی او نے صدر قاسم کی اپیل پر قیامِ امن کے لیے اپنے اہل کار قازقستان بھیجنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔
قدرتی وسائل کے باوجود مالی مسائل
قازقستان وسطی ایشیا کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جنہوں نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 میں آزادی حاصل کی تھی۔ قازقستان ان ریاستوں میں سب سے بڑی اور امیر ترین ریاست شمار ہوتی ہے۔
اس کا کل رقبہ مغربی یورپ کے برابر ہے اور یہ تیل، قدرتی گیس، یورینیم اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر سے مالا مال ہے۔
قدرتی وسائل کی وجہ سے قازقستان میں معاشی اعتبار سے مستحکم متوسط طبقہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دولت مند طبقہ بھی پایا جاتا ہے۔ البتہ کثیر قدرتی وسائل کے باوجود ملک کی معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
قازقستان میں اوسط ماہانہ تنخواہ چھ سو امریکی ڈالر ہے۔ غیر منافع بخش قرضوں کے باعث بینکاری کا نظام شدید بحران کا شکار ہے۔ خطے کے دیگر ممالک کی طرح کرپشن کا پھیلاؤ یہاں بھی ایک مسئلہ ہے۔
احتجاج کا نقطۂ آغاز
تیل پیدا کرنے والے مغربی علاقے ژاناؤزن میں شروع ہونے والی ایک ریلی حالیہ احتجاجی لہر کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی ہے۔ اس علاقے میں توانائی کے قدرتی وسائل کی آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم پر پہلے ہی بے چینی پائی جاتی تھی۔
اس سے قبل ژاناؤزن میں 2011 میں تیل کی تنصیبات میں کام کرنے والے مزدوروں کو ہڑتال کرنے پر برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے پر پولیس کی فائرنگ سے 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
رواں ہفتے اس علاقے میں زیادہ تر گاڑیوں کے ایندھن کے لیے استعمال ہونے والے لکویفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتیں دو گنا کر دی گئی تھیں۔ نئی قیمتوں کے اعلان کے بعد قریبی شہروں میں بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہو گئے اور اس احتجاج نے رفتہ رفتہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
قیادت کون کر رہا ہے؟
حکومت پر تنقید کرنے والی آوازوں کو دبانے پر قازقستان کی حکومت تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مظاہروں میں 10 ہزار افراد کی موجودگی کے باجود اس احتجاج کی کوئی قیادت سامنے نہیں آئی ہے۔
قازقستان کی حالیہ تاریخ میں بیشتر عرصہ سابق صدر نور سلطان نذر بایوف برسرِ اقتدار رہے اور انہوں نے 2019 میں اقتدار اپنے دیرینہ ساتھی قاسم جومارت توکایوف کے حوالے کر دیا تھا۔
اس کے بعد نور سلطان سیکیورٹی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے امورِ مملکت کی نگرانی کرنے لگے۔ ملک کے دفاعی اور سیکیورٹی ادارے اس کونسل کے ماتحت ہیں۔ بدھ کو توکایوف نے اعلان کیا کہ وہ نور سلطان کی جگہ خود سیکیورٹی کونسل کی سربراہی سنبھال رہے ہیں۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق حالیہ دنوں میں ہونے والے احتجاج براہ راست توکایوف کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس کا اس کا رُخ نذر بایوف کی جانب تھا جنہیں تاحال ملک کا اصل حکمران سمجھا جاتا ہے۔ ان مظاہروں میں سب سے زیادہ نعرہ ’شال کت‘ لگایا جا رہا ہے جس کا مفہوم ہے ’نکل جاؤ بوڑھے‘۔
کیا حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے؟
اگرچہ گزشتہ چند روز میں قازقستان میں حکومت مخالف احتجاج نے تیزی سے شدت اختیار کی ہے لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔
اس سے قبل 2016 میں اراضی سے متعلق قانون سازی اور بعد ازاں 2019 میں متنازع انتخابات کے خلاف بھی احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ لیکن صدر قاسم جومارت توکایوف کی حکومت اس کے باوجود برقرار رہی۔ البتہ حالیہ احتجاجی مظاہرے ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت اختیار کر گئے ہیں۔
دو روز قبل صدر توکایوف نے عوام سے اپیل میں سیاسی آزادیاں دینے کے امکان کی جانب اشارہ کیا تھا۔ لیکن اسی روز دن کے اختتام تک سامنے آنے والے ان کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کریں گے۔
خبر رساں ادارے اے پی' کے مطابق مظاہرین کسی ایک نکتے پر اکھٹے نہیں ہیں اس لیے احتجاجی لہر کے نتائج کے بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن اگر مظاہرین حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکام بھی رہے تو بھی یہ واضح امکان نظر آ رہا ہے کہ یہ احتجاج بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں کہ ان تبدیلیوں سے نتائج کیا برآمد ہوں گے؟
اس تحریر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔