پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تین میچز پر مشتمل ون ڈے انٹرنیشنل سیریز کا تیسرا اور فیصلہ کن میچ ہفتے کو لاہور میں کھیلا جا رہا ہے۔ تین میچز پر مشتمل سیریز اس وقت ایک ایک سے برابر ہے۔
آسٹریلیا نے لاہور میں ہی کھیلا جانے والا پہلا ون ڈے میچ 88 رنز سے جب کہ پاکستان نے دوسرے میچ میں چھ وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔
سیریز کے دوسرے میچ میں جہاں پاکستان نے 349 رنز کا ہدف حاصل کرکے ریکارڈ بنایا وہیں کپتان بابر اعظم اور امام الحق نے ہوم کراؤڈ کے سامنے کئی ریکارڈز اپنے نام کیے۔
اس پارٹنرشپ کے بارے میں میچ کے بعد کپتان بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کا پلان تھا کہ وہ اور امام الحق رن ریٹ کو نیچے نہیں آنے دیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا جس کی وجہ سے ان کی پارٹنر شپ بھی جمی اور پاکستان نے میچ بھی جیتا۔
امام الحق کے بقول یہ فتح ٹیم کے لیے بہت ضروری تھی۔ لاہور ان کا ہوم گراؤنڈ ہے اور ان کا خواب تھا کہ یہاں اسکور کریں اور ایسا ہی ہوا۔
پاکستان نے 349 رنز کا ہدف ایک اوور قبل ہی حاصل کرلیا
ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں جب بھی ہدف کے تعاقب کی بات آتی ہے تو کئی ٹیموں کا نام سامنے آتا ہے۔ لیکن عموماً ان ٹیموں میں پاکستان ٹیم شامل نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ کبھی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کی سست بیٹنگ یا پھر لیٹ آرڈرکی ناقص پرفارمنس ہوا کرتی تھی۔
البتہ 31 مارچ 2022 کو پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں نہیں ملتی۔
پاکستان نے مقررہ 50 اوورز میں ملنے والا 349 رنز کا ہدف 49ویں اوور میں ہی حاصل کرکے ریکارڈ بنایا۔
اس سے قبل پاکستان نے میچ جیتنے کے لیے سب سے زیادہ 329 رنز بنائے تھے۔ وہ بھی 2014 میں بنگلہ دیش کے خلاف میرپور میں۔ اس میچ میں احمد شہزاد کی سینچری، فواد عالم کے 70 گیندوں پر 74 اور محمد حفیظ و شاہد آفریدی کی نصف سینچریوں کی بدولت پاکستان نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ جبکہ جمعرات کو کھیلے گئے میچ میں پاکستان کی کامیابی میں امام الحق اور بابر اعظم کا ہاتھ تھا۔
امام الحق کی مسلسل دوسری ون ڈے سینچری
امام الحق نے اپنے انتخاب پر جہاں ٹیسٹ سیریز میں ایک ہی میچ میں دو سینچریاں بناکر اپنے ناقدین کا منہ بند کردیا تھا وہیں مسلسل دو ون ڈے میچز میں لگاتار سینچریاں اسکور کر کے انہوں نے ون ڈے کرکٹ میں بھی سلیکشن کو درست ثابت کیا۔
امام الحق نے وکٹ کے چاروں طرف اسٹروکس کھیل کر صرف 90 گیندوں پر اپنے کریئر کی نویں سینچری اسکور کی۔ اس طرح وہ آٹھ سینچریاں بنانے والے جاوید میانداد اور سلمان بٹ سے اب ایک سینچری آگے اور موجودہ پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ اور شعیب ملک کے ہم پلہ ہوگئے ہیں۔ جنہوں نے اپنے کریئر کے دوران نو نو ون ڈے سینچریاں اسکور کیں۔
اس وقت ون ڈے کرکٹ میں سینچری بنانے والے پاکستانی بلے بازوں میں ان کا ساتواں نمبر ہے۔ سب سے زیادہ سینچریوں کا ریکارڈ اب بھی سعید انور کے پاس ہے۔ جنہوں نے 20 ون ڈے سینچریاں بنائیں جب کہ امام الحق کے ساتھ سینچری بنانے والے کپتان بابر اعظم 15 سینچریوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
موجودہ بیٹنگ کوچ محمد یوسف بھی 15 سینچریوں کے ساتھ تیسرے جب کہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے محمد حفیظ 11 سینچریوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر موجود ہیں۔
امام الحق کے چچا انضمام الحق اور سابق پاکستانی بلے باز اعجاز احمد دس دس سینچریوں کے ساتھ ان سے ایک درجہ اوپر ہیں۔ تاہم دنیائے کرکٹ کی تاریخ میں کسی بھی بلے باز نے امام الحق سے کم اننگز میں نو سینچریاں نہیں بنائیں۔
اپنے پہلے ون ڈے میں سینچری اسکور کرنے والے امام الحق نے اپنے 48ویں میچ میں نویں سینچری اسکور کی جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
ان سے پہلے دنیائے کرکٹ میں سب سے کم اننگز میں نوسینچریاں اسکور کرنے کا ریکارڈ جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ کے پاس تھا۔ جنہوں نے 52 اننگز میں نویں بار 100 کا ہندسہ عبور کیا تھا۔
جنوبی افریقہ کے ہی کوئنٹن ڈی کوک نے نویں سینچری 53ویں اننگز میں اسکور کی تھی جب کہ کپتان بابر اعظم نے نویں سینچری کے لیے 61 اننگز کھیلیں۔
ون ڈے انٹرنیشنل میں کپتان بابر اعظم کی 15ویں سینچری
جس طرح امام الحق نے 48ویں اننگز میں نویں سینچری اسکور کی اسی طرح پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے 83ویں اننگز میں 15ویں سینچری اسکور کرکے ہاشم آملہ کو ایک اور ریکارڈ سے محروم کردیا۔
جنوبی افریقی کھلاڑی کو اس ریکارڈ کو پانے کے لیے 86 اننگز کھیلنا پڑی تھیں جبکہ پاکستانی قائد نے تین اننگز قبل ہی یہ ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔
پاکستان کی جانب سے ون ڈے سینچریاں بنانے والوں کی فہرست میں تو بابر اعظم دوسرے نمبر پر آگئے لیکن بطور کپتان چوتھی سینچری بناکر انہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ان سے قبل یہ ریکارڈ اظہر علی کے پاس تھا جنہوں نے بطور کپتان تین سینچریاں اسکور کی تھیں۔
اس سینچری کے ساتھ ہی بابر اعظم آسٹریلیا کے خلاف سینچری بنانے والے پہلے پاکستانی کپتان بھی بن گئے۔ ان سے قبل کسی بھی پاکستانی کپتان نے آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل میں سو کا ہندسہ عبور نہیں کیا تھا۔