اگرچہ پاناما دستاویزات سامنے آئے دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے مگر وزیراعظم کے اہل خانہ کی آف شور یعنی سمندر پار کمپنیوں اور جائیداد کا معاملہ اب تک پاکستان میں ایک سیاسی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
پیر کو حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک ریفرنس جمع کروایا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو پارلیمان کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم 31 مئی کو دل کا آپریشن کروانے کے بعد لندن میں مقیم ہیں اور ان کی واپسی آئندہ ماہ متوقع ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار سردار لطیف کھوسہ نے ریفرنس جمع کرانے کے بعد نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثوں کی تمام تفصیلات ظاہر نہیں کیں جو تعزیرات پاکستان اور آئین کی متعدد شقوں اور الیکشن کمیشن کے قواعد کے منافی ہے لہٰذا انہیں نااہل قرار دیا جائے اور ان کی سیٹ پر ضمنی انتخاب کرایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی جماعت کے رہنماؤں پر ایسے الزامات سامنے آئے تو انہیں بھی جوابدہ ہونا چاہیئے۔
ریفرنس میں شریف خاندان کے اثاثوں سے متعلق دستاویزات، میڈیا رپورٹس اور بیانات بھی جمع کرائے گئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی رانا محمد افضل خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کیونکہ پیپلز پارٹی نے بیان بازی کی بجائے ایک قانونی راستہ اختیار کیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن دونوں فریقین کا موقف سنے گا۔
’’ہماری پارٹی کا شروع سے ہی یہی مؤقف رہا ہے کہ اس کے اندر میاں صاحب ملوث نہیں۔ وہ اپنی جو بھی لیگل پوزیشن ہے وہ انکوائری کمیشن، الیکشن کمیشن یا اگر کورٹ میں یہ معاملہ جاتا ہے تو کورٹ کے سامنے وہ اپنی پوزیشن رکھیں گے اور دونوں فریقین کو اپنا مؤقف دینے کا موقع ملے گا اور اس کے اوپر ایک قانونی فیصلہ آ جائے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’وزیراعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی بھی فیصلہ ایسا آتا ہے تو وہ فوراً اپنے آپ کو الگ کر لیں گے۔‘‘
گزشتہ ہفتے حزب اختلاف کی ایک اور جماعت پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی ایسی ہی ایک درخواست جمع کروائی تھی جس میں وزیراعظم کو اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
تاہم انہیں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعداد پوری ہونے کے بعد ہی ان کی درخواست کی سماعت کی جائے گی۔
رواں ماہ کمیشن کی ارکان کی میعاد پوری ہونے کے بعد ان کی آسامیاں خالی ہو گئی تھیں جنہیں ابھی تک پر نہیں کیا گیا۔
اپریل میں پاناما دستاویزات میں وزیراعظم کے اہل خانہ کے نام سامنے آنے کے بعد حزب اختلاف نے الزام عائد کیا تھا کہ وزیراعظم نے آف شور کمپنیوں کو ملک سے دولت باہر لے جانے اور ٹیکسوں سے بچنے کے لیے استعمال کیا۔
ان الزامات کی تحقیقات کے لیے حکومت نے ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا مگر اس کمیشن کے ضابطہ کار پر اختلاف رائے کے بعد اسے اب تک تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔