آئرلینڈ کے قومی ریفرنڈم میں ووٹروں نے واضح اکثریت کے ساتھ ہم جنس پرستی کو قانونی درجہ دینے کے حق میں رائے دی ہے۔ یہ اس موضوع پر ہونے والا دنیا کا پہلا ریفرنڈم تھا۔
ہفتے کو جاری کیے گئے نتائج کے مطابق، 62 فی صد سے زائد ووٹروں نے ملک کے آئین میں ہم جنس پرستی کی اجازت کو شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
ریفرنڈم میں 60 فی صد سے زیادہ اہل ووٹروں نے حصہ لیا، جو گذشتہ دو عشروں کے دوران آئرلینڈ میں ہونے والی مقبول رائے دہی میں شرکت کرنے والوں کی سب سے زیادہ شرح ہے۔
اسے ’ڈرامائی سماجی تبدیلی‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے دو دہائیاں قبل اس روایتی کیتھولک ملک نے ہم جنس پرستی کو قابل گرفت قرار نہیں دیا تھا۔
اکثریتی ’ہاں‘ کا یہ ووٹ زیادہ تر اُن نوجوان ووٹروں نے دیا جو اس ریفرنڈم میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر بیرون ملک سے وارد ہوئے تھے۔
آئرلینڈ کے وزیر برائے مساوی حقوق، اودھن او رایوڈین کے بقول، ’آج مجھے آئرش ہونے پر فخر ہے‘۔
یورپ کے ایک درجن سے زیادہ ملکوں میں ہم جنس پرستی کو قانونی درجہ حاصل ہے۔
اِسے ارجنٹینا، برازیل، کینیڈا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، یوراگوے اور امریکہ کی متعدد ریاستوں میں آئینی درجہ دیا جا چکا ہے۔
شہری حقوق سے متعلق آئرلینڈ کی تنظیم نے ’اثبات‘ میں جواب دینے کی مہم چلائی۔ اس کے ترجمان، والٹر جےوردنے کے مطابق، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم جنس پرستی کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔
آئرلینڈ میں، قدامت پرست رومن کیتھولک چرچ ایک طاقتور فورس ہے، اور اُس سے تعلق رکھنے والے متعدد پادریوں نے اس طرح کی آئینی تبدیلی کی مخالفت میں بیان دیے ہیں۔ دوسری جانب، آئرلینڈ کی سیکولر حکومت، اس کی حامی ہے۔
سنہ 1993 تک ہم جنس پرستی قابل گرفت تھی۔