پاکستان میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کے لواحقین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق اُن کی فوری رہائی کے لیے اقدامات کرے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ سے حاصل کیا گیا حکمِ امتناعی بھی واپس لیا جائے۔
منگل کو لاپتا افراد اور فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کے لواحقین نے پشاور میں پریس کانفرنس کی اور اپنے مطالبات کو دوہرایا۔
یہ مطالبہ کرنے والوں میں خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع سوات سمیت دیگر دیہات سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل تھیں۔
خیال رہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد وجود میں آنے والی فوجی عدالتوں کو عام شہریوں سے متعلق کیسز سننے کا بھی اختیار دیا گیا تھا۔ ان کا مقصد دہشت گردی سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات کو تیزی سے نمٹا کر اُنہیں سزائیں دینا تھا۔
فوجی عدالتوں کی جانب سے سنگین جرائم میں ملوث سیکڑوں افراد کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔
البتہ، گزشتہ سال پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں ایک بینچ نے فوجی عدالتوں کے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 196 افراد کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا تھا۔
لاپتا افراد اور فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کے لواحقین کا کہنا تھا کہ 2009 میں سوات آپریشن کے دوران لگ بھگ تین ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے سیکڑوں افراد اب بھی صوبے کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جن تک اُنہیں محدود رسائی دی جاتی ہے۔
پریس کانفرنس میں شریک ایک خاتون گل ناز کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد میں ان کا بھائی فلک ناز شامل ہے جو مقامی کالج میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا اور 2009 میں اسے اٹھایا گیا جس کے بعد اب تک اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔
گل ناز کا کہنا ہے کہ 2009 میں فوج اور پولیس نے بہت سے لوگ گرفتار کر لیے تھے جن میں سے 250 کے لگ بھگ کو فوجی عدالتوں نے سزائیں دی تھیں۔
گل ناز نے مطالبہ کیا کہ حکومت پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر درخواست واپس لے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بری ہونے والے افراد کو رہا کرے۔
متاثرہ افراد نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت تمام لاپتا افراد کو سامنے لا کر اُنہیں عدالتوں میں صفائی پیش کرنے کے مواقع فراہم کرے۔
سوات ہی سے تعلق رکھنے والی فرح زاد کا کہنا ہے کہ 2010 میں جب مطلوب افراد کی فہرست میں ان کے بیٹے آفتاب الدین کا نام سامنے آیا تو اس نے ازخود اپنے بیٹے کو فوج کے حوالے کر دیا جس کے بعد فوجی عدالت کی جانب سے اسے سزا سنائی گئی۔
ایک اور متاثرہ شخص حضرت سید نے الزام لگایا کہ اُن کے بیٹے کو 2010 میں گرفتار کر کے سادے کاغذ پر ناکردہ گناہوں کا اعترافِ جرم کرا لیا گیا۔ لہذٰا اب وہ کوہاٹ جیل میں ہے۔
'عدالت جو حکم دے گے عمل کریں گے'
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی ہمدردیاں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہیں۔ تاہم یہ معاملہ عدالت میں زیرِ التوا ہے۔ عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ عرصۂ دراز سے احتجاج کر رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیرِ اعظم سے ملاقات کی یقین دہانی کے بعد لاپتا افراد کے لواحقین نے اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کیا تھا۔