پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران پاکستان کے انتہائی اہم فیصلوں کے منصف رہے۔
اپنے کریئر کے دوران انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے سے لے کر انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے تک متعدد مقدمات کی سماعت کی۔
اُن کی موت پر پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سمیت اعلیٰ سول و عسکری عہدیداروں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موت کو ملک و قوم اور بالخصوص عدلیہ کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔
جسٹس وقار 16 مارچ 1961 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1977 میں کینٹ پبلک اسکول پشاور سے میٹرک اور 1981 میں اسلامیہ کالج پشاور سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
خیبر لا کالج سے وقار احمد سیٹھ نے 1985 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی جب کہ 1986 میں پشاور یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔
انہوں نے 1985 میں لوئر کورٹس سے اپنی وکالت کا آغاز کیا۔ 1990 میں ہائی کورٹ میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں شروع کیں اور مئی 2008 میں سپریم کورٹ میں وکالت شروع کی۔
ایڈیشنل جج کی حیثیت سے 2011 میں فرائض کی انجام دہی شروع کی۔ اس دوران وہ بینکنگ جج اور پشاور ہائی کورٹ میں کمپنی جج بھی رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سب آرڈینیٹ جوڈیشری سروس ٹربیونل پشاور کے رکن بھی رہے۔
انہوں نے 28 جون 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فرائض انجام دینے کے علاوہ وقار احمد سیٹھ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس خصوصی عدالت کے سربراہ بھی تھے جس نے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کی تھی۔
اس مقدمے کے فیصلے میں سابق صدر پرویز مشرف کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں سرِعام پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پھانسی کے بعد جنرل پرویز مشرف کی لاش کو لٹکا دیا جائے۔
گو کہ بعد میں وفاقی حکومت کی اپیل پرسپریم کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کیا تھا مگر سیاسی، سماجی اور انتظامی حلقوں میں اب بھی اس پر بحث مباحثہ جاری ہے۔
جون 2018 میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وقار احمد سیٹھ نے 2014 کے اواخر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد بننے والی خصوصی فوجی عدالتوں کے 75 سے زیادہ سزا یافتہ مبینہ دہشت گردوں کو دی جانے والی سزاؤں کو معطل کر دیا تھا۔
بعدازاں سماعت کے دوران اس قسم کے ملزمان کی تعداد 200 تک پہنچ گئی تھی۔ اس فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ نے لکھا تھا کہ جن افراد کو سزائیں دی گئی ہیں ان کو دفاع کے حق سے محروم رکھا گیا۔
اسی نوعیت کی مختلف درخواستوں پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے رواں سال 16 جون کو فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے تقریباً 200 مبینہ دہشت گردوں کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع حاصل کر رکھا ہے۔
2018 کے آخر میں پشاور قومی جرگہ میں شامل اور سابق صوبائی وزیر امان اللہ حقانی کی دائر کردہ درخواست پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پشاور کے بس منصوبے 'بی آر ٹی' میں لگ بھگ 35 مبینہ بدعنوانی اور کمی بیشی کی نشاندہی کر کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو جلد از جلد تحقیقات کرنے اور رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔ مگر خیبر پختونخوا حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے حکم امتناع حاصل کر لیا تھا۔
وقار احمد سیٹھ نے ساتھی خاتون جج مسرت ہلالی کے ساتھ ایک مشترکہ بینچ میں 17 اکتوبر 2019 کو ایکشن سین ایڈ سول پاور ریگولیشن کو آئین اور انسانی حقوق کے قوانین سے متصادم قرار دے کر دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیے جانے والوں کے خصوصی حراستی مراکز کو ختم کرنے اور انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کو ان مراکز کا انتظام سنبھالنے کا حکم دیا تھا۔
اسی طرح ایک اور فیصلے میں جسٹس وقار نے 23 اکتوبر 2019 کو فاٹا عبوری انتظامی آرڈیننس انٹرم فاٹا گورننس ریگولیشن 2018 کو بھی منسوخ کر کے صوبائی حکومت کو جلد از جلد تمام قبائلی علاقوں میں عدالتیں قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔
رواں سال 11 ستمبر کو انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے حزبِ اختلاف میں شامل 30 اراکین کی دائر کردہ ایک جیسی درخواستوں پر کارروائی کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اقربا پروری کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے سے روک دیا تھا۔
جسٹس وقار کی عدالت نے 29 جولائی کو پشاور کی عدالت کے احاطے میں امریکی شہری کو قتل کرنے والے ملزم کو استغاثہ کی جانب سے اسکول ریکارڈ کی بنیاد پر کم سن قرار دیا تھا۔
رواں سال 15 اکتوبر کو وقار احمد سیٹھ نے لگ بھگ ایک سال قبل پراسرار طور پر غائب ہونے والے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے خلاف حکم امتناع جاری کیا تھا۔