سخت گیر موقف رکھنے والی بعض مذہبی جماعتوں کی کال پر لاہور سے بدھ کو روانہ ہونے والی ریلی جمعرات کی سہ پہر کو اسلام آباد پہنچ گئی اور اب انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس سے کچھ فاصلے پر واقع چائنہ چوک پر دھرنا دے رکھا ہے۔
لبیک یا رسول اللہ نامی جماعت کی قیادت میں دیگر مذہبی گروپوں کے سینکڑوں کارکن اس ریلی میں شامل ہیں جو ختم نبوت کے حلف نامے میں قبل ازیں ہونے والی مبینہ تبدیلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت حلف نامے کے متن کو تبدیل کرنے والے افراد کا تعین کر کے ان کے خلاف کارروائی کرے۔
گو کہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ختمِ نبوت کے حلف نامے سے متعلق ہونے والی تبدیلی ایک کلیریکل غلطی تھی جسے پارلیمان نے درست کر دیا ہے اور اب اس معاملے پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔
رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے ان مذہبی گروپوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اس معاملے پر احتجاج نہ کریں اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ ختمِ نبوت کے اقرار نامے پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔
واضح رہے کہ انتخابی اصلاحات کے ایکٹ 2017ء میں کاغذاتِ نامزدگی کے فارم کے ساتھ مسلمان امیدوارو ں کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ ضروری ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کے متن کو ' اوتھ ' یعنی حلف کو ’’ڈکلیئر‘‘ کے لفظ سے تبدیل کر دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں بعض سیاسی اور مذہبی تنظیمں کے احتجاج کے بعد پارلیمان نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں منظور کیے جانے والی ایک ترمیمی قانون کے ذریعے حلف نامے کے متن کو اس کی اصل حالت میں بحال کر دیا تھا۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری نے کا کہنا ہے کہ اس ریلی میں شامل ہونے والی بعض مذہبی جماعتیں اب ملک کے سیاسی دھارے میں بھی شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ" اصل وجہ جو ہمیں نظر آتی ہے کہ ان جماعتوں کے پاس کوئی جامع سیاسی ایجنڈا نہیں ہے اس لیے یہ مذہبی معاملات کے ذریعے اپنے لیے سیاسی و انتخابی میدان میں لوگو ں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
حالیہ مہینو ں میں انتہا پسند سوچ رکھنے والے بعض گروپ ملک کے قومی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اسی لیے یہ گروپ اب قومی انتخابی سیاست میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔
تاہم حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ان مذہبی گروپوں کے لیے سیاسی میدان آسان نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ "اب ان گروپوں کا خیال ہے کہ وہ سیاسی میدان میں بھی اپنے حامی بنا سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ مذہبی جماعتوں کے حامیوں کا حلقہ محدود ہوتا ہے اس لیے ان کی ووٹر بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جو ان جماعتوں کے مذہبی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ "
وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے اس ریلی کی آمد سے قبل گزشتہ روز سے ہی شہر بھر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے اور بعض داخلی اور خارجی راستوں کے علاوہ خاص طور پر ریڈ زون کہلانے والے حساس علاقے کے باہر کنٹینر لگا کر وہاں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا تھا۔