ایران میں نئے سال کی تعطیلات کے بعد اسکول جیسے ہی دوبارہ کھل رہے ہیں، طالبات کو ایک بار پھر کیمیائی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ زہر سے حملوں کا ذمہ دار کون ہے، لیکن کچھ ایرانیوں کو شبہ ہے کہ ان کی اپنی حکومت ہی ممکنہ طور پر اس جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، حملوں میں ملک بھر کے اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور طالب علموں کو ایسے نامعلوم زہریلے مرکبات کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو عمارتوں کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ جن متاثرین کو اسپتال داخل کیا گیا ہے ان میں سے کچھ کو سانس لینے میں دشواری اور تنفس کی دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
سرکاری میڈیا کی خبر کے مطابق، زہر دینے والے حملوں کے اس پراسرار سلسلے نے ہزاروں طلبا کو بیمار کر دیا ہے اور منگل کو تازہ ترین واقعہ کے بعد ایرانی اسکول کی 20 طالبات کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ارنا کی رپورٹ کے مطابق، شمال مغربی صوبے مشرقی آذربائیجان کے دارالحکومت تبریز میں ان لڑکیوں کا علاج کیا گیا جو زہر کے حملے میں سانس کی تکلیف میں مبتلا ہو گئیں تھیں۔
زہر دیے جانے کا یہ سلسلہ ایران میں ان احتجاجی تحریکوں کے بعد سامنے آیا ، جو ایک نوجوان کرد خاتون کی موت کے خلاف شروع ہوئے۔22سالہ مہسا امینی کو ایران کی اخلاقیات پولیس نے حجاب کو صحیح طریقے سے نہ پہننے پر گرفتار کر لیا اور بعد میں حراست کے دوران مبینہ طور پر تشدد کے باعث اس کی حالت بگڑ گئی اور اسے اسپتال لے جایا گیا ،جہاں وہ دم توڑ گئی۔
پولیس مہسا امینی پر کسی قسم کے تشدد کی تردید کرتی ہے ،لیکن عوام اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں ۔اور جیسے ہی اس نوجوان خاتون کو سپرد خاک کیا گیا ،احتجاج شروع ہوگئے،جو بہت تیزی سے ملک بھر میں پھیل گئے۔
پولیس نے اس احتجاج کو دبانے کے لیے مظاہرین پر آنسو گیس پھینکی ،لاٹھیاں برسائیں اور پانی کی بوچھاڑ کی لیکن عوام کا اشتعال بڑھتا ہی چلا گیا۔
ناروے میں مقیم ایران ہیومن رائٹس (آئی آر اے ) نے منگل کو اپنے پچھلے اعداد و شمار کو بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے ستمبر میں شروع ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں کم از کم 537 افراد کو ہلاک کیا ہے۔
ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر ) نے یہ بھی کہا کہ اس عرصے میں جہاں چار افراد کو احتجاج سے متعلق الزامات پر پھانسی دی گئی تھی وہیں اسی مدت میں 300 سے زیادہ افراد کو دیگر الزامات کے تحت پھانسی دی گئی ، جسے اس نے معاشرے کو ڈرانے کا ایک وسیع حربہ قرار دیا ۔
حکومت کو خطرہ ہے کہ اسکول و کالج کھلنے کے بعد یہ آگ اور بھی پھیلے گی ،اس لیے شبہ ہے کہ طالب علموں کو درسگاہوں سے دور رکھنے کے لیے ،زہر یلی گیس یا اسی قسم کی کوئی چیز استعمال کی جارہی ہے جو معصوم طلبا اور طالبات کو متاثر کر رہی ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے زہر دینے کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے اور اس کے مرتکب افراد کو سخت ترین سزا دینے کا حکم دیا ہے۔
وی او اے فارسی سروس