پاکستان کی پارلیمنٹ نے سوموار کو اپنے مشترکہ اجلاس میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کرانے کی قرارداد منظور کی ہے۔
یہ قرارداد ایسے وقت میں منظور کی گئی ہے جب سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے کا فیصلہ دے رکھا ہے۔
ایسے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے اجتناب برت سکتی ہے۔
انتخابات کے حوالے سے دوآئینی ادارے متضاد پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور مبصرین کے مطابق یہ صورت حال ملک کو آئینی بحران کی طرف لے کر جارہی ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر چہ پارلیمنٹ کی قرارداد آئینی و قانونی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن سپریم کورٹ اسے یکسر نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قرارداد اراکین پارلیمنٹ کی رائے سمجھی جائے گی لیکن یہ قانون کی اہمیت نہیں رکھتی کہ سپریم کورٹ اس کے مطابق فیصلے لے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ پر لازم نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل کرے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس صورت میں وزیر اعظم کو بلوایا جاسکتا ہے اور اگر ان کی وضاحت قابل قبول نہ ہوئی تو عدالت کوئی ایکشن بھی لے سکتی ہے۔
جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ حکومت کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے علاوہ صرف ایک راستہ تھا کہ وہ اس پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرتے تاہم حکومت نے 4 کے مقابلے 3 ججز کے فیصلے کے اپنے موقف کے باوجود اس پر نظر ثانی دائر نہیں کی۔
پارلیمانی امور کے تجزیہ نگار ظفر اللہ نے کہا کہ ہر ادارے کے اپنے ہتھیار ہوتے ہیں جنہیں وہ مناسب وقت پر استعمال کرتا ہے جیسا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر از خود نوٹس کا ہتھیار استعمال کیا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس تقاریر اور قرارداد کے ہی آلات ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح صدر کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی پر نظر ثانی کا کہیں اور انہوں نے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے بل کو واپس پارلیمنٹ کو بھجوا دیا۔
ظفر اللہ خان نے کہا کہ ہر ادارہ اپنے آلات اور ہتھیاروں کے مطابق کھیل رہا ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ سب اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کھیل رہے ہیں۔
ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان کی قرارداد کو نظر انداز نہیں کرسکتی اور اگر حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم نہ کرنے پر ایکشن لیا گیا تو یہ ایک انتہائی اقدام ہوگا۔
اس کے علاوہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں کو بھی بل کی صورت قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ امکان کیا جارہا ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی حکومتی اتحادی جماعتیں الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کرنے کے بل کو رد کر دیں گی۔
جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ حکومت آرٹیکل 81 کا سہارا لے رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی عدالتی فیصلے کے تحت فنڈز کی فراہمی کرنا ہوتو پارلیمنٹ کی منظوری سے کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے مہیا کیے جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تکنیکی بنیادوں پر حکومت کی حکمت عملی درست ہے لیکن انہیں چاہئے تھا کہ وہ یہ اقدام سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے فوراً بعد لے لیتے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن بتائے گا کہ انہیں حکومت سے فنڈز فراہم نہیں دیے گئے نہ ہی سیکیورٹی کے حوالے سے یقین دہانی کروائی گئی ہے تو ایسے میں سپریم کورٹ وفاقی حکومت کو بلا سکتی ہے اور وزیر اعظم کو قانونی و عدالتی مضمرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ اس صورت میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
ظفر اللہ خان بھی سمجھتے ہیں کہ عدالتی حکم کے مطابق 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تاخیر کے بہت سے جواز ہیں جن میں سے پارلیمنٹ کی قرارداد ایک محرک ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے خود اپنے فیصلے میں انتخابات کے حوالے سے 90 دن کی قدغن پر رعایت دی اور ممکن ہے کہ عدالت کو 14 مئی کو انتخابات کے حوالے سے اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے جو دلچسپی دکھا رہی ہے خیبر پختونخوا اسمبلی کے سلسلے میں نظر نہیں آرہی ہے۔
ظفر اللہ خان سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں جب ملک معاشی بحران کے بعد آئینی بحران میں داخل ہوچکا ہے ایسے میں سیاست دانوں کے درمیان بات چیت ہی واحد راستہ بچتا ہے جس کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔