( نذرانہ غفار، وی او ا) پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے کابل میں حکمران طالبان راہنماؤں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تاہم وہ تحریک طالبان پاکستان کے پاکستان پر حملوں میں اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ایک ’کامریڈی‘ موجود ہے کیونکہ وہ بیس برسوں تک نیٹو کے خلاف مل کر لڑتے رہے ہیں لیکن بظاہر لگتا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے راہنماؤں کی پاکستان میں دوبارہ آبادکاری عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمت عملی تھی جس کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن یہ کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں سابق قبائلی علاقوں اور دیگر شہروں میں عام شہریوں کے ٹی ٹی پی کے خلاف مظاہروں کے حوالے سے اعتراف کیا کہ عوام ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر رہنے سے صاف انکار کر رہے ہیں اور اچھی بات ہے کہ یہ احتجاج مسلح نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے لیے نذرانہ غفار کےساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں خواجہ آصف نے افغانستان کے اندر خواتین کے حقوق، پاکستان کے اندرونی سیاسی و معاشی حالات، اسٹیبلشمنٹ کے اثرو رسوخ اور کسی نئے عمرانی معاہدے جیسے معاملات پر بھی تفصیل سے گفتگو کی۔
افغان طالبان کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات:
ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نےکہا کہ طالبان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں لیکن پاکستان پرٹی ٹی پی کے حملے رکوانے میں وہ خاطر خواہ موثر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
’’ طالبان کے ساتھ ہمارے کافی اچھے تعلقات ہیں۔ لیکن جو چیز ہمیں پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ تحریک طالبان آج بھی پاکستان پر بالخصوص خیبر پختونخوا پر حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ڈی جی آئی ایس آئی کے ہمراہ افغانستان کے ایک ماہ پہلے دورے میں یہ معاملہ زیربحث آیا تھا۔ طالبان نے اس مسئلے سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اور بتایا کہ وہ اپنی زمین دوحہ معاہدے کے تحت دہشت گردی کے لیے کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
پاکستان کے اندر گزشتہ دنوں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے اندر حملوں کے پیچھے ٹی ٹی پی کو واپس لانے اور ان کے لیے نرم گوشہ موجود ہونا بھی دہشت گرد حملوں کی ایک وجہ بنی ہے۔ خواجہ آصف نے اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا:
’’ طالبان کوایک پروگرام کے تحت واپس لا کر بسایا گیا۔۔۔۔عمران خان اپنے پورے سیاسی کیریئر میں اشارہ دیتے رہے ہیں کہ وہ طالبان کے نظریاتی طور پر حامی ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا بعض مواقع پر ان کو ’طالبان خان‘ بھی کہا کرتا تھا۔‘‘
پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا کہ ان کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں لیکن ماضی میں ایک میدان میں نیٹو کے خلاف مل کر لڑنے کی وجہ سے ان کے اور ٹی ٹی پی کے درمیان بقول ان کے ایک ’کامریڈی‘ موجود ہے۔
’’ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں سے متعلق جو میری اطلاعات ہیں اس کے مطابق ان کے سات آٹھ ہزار افراد افغان طالبان کے ساتھ مل کر نیٹو فورسز کے خلاف 20/22 سال کی جنگ میں شامل رہے ہیں۔ اس اعتبار سے افغان اور پاکستانی طالبان کے درمیان ایک ’کامریڈری‘ موجود ہے جو طالبان کے ساتھ ملاقاتوں میں ان کی باتوں سے بھی نظر آتی تھی کہ وہ ان سے مخالفت لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن وہ پاکستان کی بھی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
خواجہ آصف نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کے پاس امریکہ کے افغانستان کے اندر چھوڑے ہوئے جدید آلات بھی موجود ہیں۔ انہوں نے بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ طالبان کی آج بھی مدد کر رہا ہے۔
’’ طالبان کے پاس امریکہ کے افغانستان کے اندر رہ جانے والے آلات بشمول نائٹ ویژن گاگلز (رات کو دیکھنے کی اہلیت رکھنے والی عینکیں) موجود ہیں۔ کچھ اور ملکوں سے بھی ان کو ایسے آلات مل رہے ہیں۔ جن لوگوں کے تعلقات پاکستان کے ساتھ اچھے نہیں ہے، جیسے بھارت، میں نام لے دیتا ہوں، وہ طالبان کی ماضی میں بھی افغانستان کے اندر اپنے قونصلیٹ کے ذریعے مدد کرتے رہے، ہم نے بین الاقوامی برادری کو ثبوت بھی فراہم کیے، اب وہ طالبان کی مدد کر رہا ہے۔‘‘
بھارت پاکستان کی جانب سے ماضی میں عائد کردہ اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔ نئی دہلی کا موقف رہا ہے کہ افغانستان میں اس کا کردار محض تعمیر اور انسانی ترقی کے منصوبوں تک محدود ہے۔
ٹی ٹی پی کے خلاف پی ٹی ایم اور دیگر جماعتوں کا سابق فاٹا اور دیگر علاقوں میں کم و بیش ایک سو کے قریب مظاہروں پر ردعمل
وزیردفاع خواجہ آصف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے عوام طالبان کے ساتھ ’ کو ایگزیسٹ‘ کرنے کو تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی سرحدی پٹی سے منتخب ہو کر آنے والے قومی اسمبلی کے راہنما بھی اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ احتجاج مسلح نہیں ہے۔
’’ بڑی قابل ذکر بات ہے کہ طالبان کی واپسی کے خلاف لوگ غیر مسلح احتجاج کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ یہ لوگ ماضی میں بھی طالبان کے ڈسے ہوئے ہیں۔ پی ٹی ایم کی قیادت کو دیکھ لیں، ان کے عزیزواقارب ٹی ٹی پی کے ہاتھوں مارے گئے۔ ۔۔۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ لوگوں نے خود احتجاج کیا۔ ماضی میں انہوں نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ اب انہوں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ایک پرامن شہری کی حیثیت سے پچھلے آٹھ دس برسوں میں جو زندگی گزار چکے ہیںِ اس کو دیکھتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔ تو انہوں نے بہت موثر انداز میں آواز اٹھائی ہے۔‘‘
انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے سیاسی حالات چونکہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اس لیے ٹی ٹی پی کے خلاف احتجاج اور مظاہرے میڈیا پر زیادہ کوریج نہیں لے سکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی حد تک (اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی) یہ بات درست ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں کوئی فرق نہیں لیکن افغان راہنماؤں سے بات کر کے جو تاثر ملا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ان سے فاصلہ ضرور اختیار کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ اگر پاکستان کے ساتھ وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے تو پاکستان پھر تنگ آمد بجنگ آمد ہو گا۔ اور افغان طالبان ایسا نہیں چاہیں گے، وہ سیاسی طور پر باشعور لوگ ہیں۔‘‘
طالبان اور لڑکیوں کی تعلیم
افغان طالبان کی جانب سے خواتین پر آئے روز قدغنوں کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا:
’’ ایران میں خواتین پراتنی پابندیاں نہیں جتنی افغانستان کے اندر ہیں۔ ایران میں بچیاں یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، خواتین کا کردار ہے، ایران کی قومی زندگی کے اندر۔ ان کو معاشی اور سیاسی طور پر مفلوج نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب بھی ایک قدامت پسند ملک تھا اب خواتین وہاں ہر شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ طالبان کے پرچم پر بھی کلمہ لکھا ہے اور مذہب اسلام بچے بچیوں سب کے لیے ’اقرا‘ سے شروع ہوتا ہے۔ طالبان اپنی کامیابیوں کو خواتین پر پابندیوں کے ذریعے نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کے اندر اتحادی حکومت آیا تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے؟
افغان سروس کے لیے نذرانہ غفار کے ساتھ انٹرویو میں خواجہ آصف نے پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات کے بارے میں کہا کہ عمران خان کے موقف میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔
’’ عمران خان فوج پر الزام عائد کر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ امریکہ اور فوج سے متعلق عمران خان اس وقت کہاں پر کھڑے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران ان کا موقف بدلتا رہا ہے۔ امریکہ سے شروع ہو کر آئی جی پنجاب تک پہنچ گئے کہ وہ ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ان کے حالیہ بیانات سے سمجھ نہیں آتی وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومت کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں نہیں چاہتے ہیں؟ ان کا واضح موقف کوئی نہیں ہے۔‘‘
ان کے بقول عمران خان آج بھی اپنی رشتہ داری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قائم کرنا چاہیں گے۔ ہمارے ساتھ نہیں۔
کیا پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے اثرو رسوخ سے آزاد ہو سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ اس مقصد کے لیے صرف سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا ہو گا بشمول اسٹیبلشمنٹ کے اور نیا عمرانی معاہدہ کرنا ہو گا۔
’’پاکستان کی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے (اثرورسوخ سے) سے نکل سکتی ہیں۔ یہ جو اسد قیصر اور دیگر لوگ مذاکرات کی بات کرتے ہیں، یہ قومی ڈائیلاگ ہونے چاہیں۔ اس میں اسٹیبلشمنٹ بھی بیٹھے۔ میڈیا کی بھی نمائندگی ہو۔ سول سوسائٹی کے لوگ بھی ہوں۔ تبھی قومی مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ نیا سوشل کنٹریکٹ ہونا چاہیے اور تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان ہونا چاہیے جس میں پاور سٹرکچر کے لوگ موجود ہوں۔ ‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بھی جارح ہے، میڈیا بھی کبھی بے لگام، کبھی بالگام ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بڑے کاروباروں کا ایک کردار ہے۔ لہٰذا سیاستدان اکیلے مذاکرات کریں گے بھی تو وہ قومی زندگی میں بنیادی تبدیلی نہیں لا سکتے۔‘‘