رسائی کے لنکس

منور رانا؛ غزل میں 'ماں' کو مخاطب کرنے والی آواز بھی خاموش ہوئی


مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا
جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہو جائیں گے ہم
اے زمیں اِک دن تری خوراک ہو جائیں گے ہم

اِن اشعار کے خالق اور مشاعروں کے مقبول شاعر منور رانا انتقال کر گئے ہیں جنہیں پیر کو لکھنؤ کے مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔

اُن کے اکلوتے فرزند تبریز رانا کے مطابق 71 سالہ منور رانا کو دو ہفتے قبل طبیعت کی خرابی کے باعث اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، وہ 2017 سے گلے کے کینسر، دل اور گردے کے عوارض میں مبتلا تھے۔

چھبیس نومبر 1952 کو اترپردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہونے والے منور رانا کی زندگی کا بیشتر حصہ کلکتہ میں گزرا جہاں ان کے والد کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا جسے بعد میں انھوں نے سنبھالا۔

کئی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے منور رانا کی شاعری بالخصوص ان کی غزلیں کافی پسند کی جاتی تھیں۔ وہ مشاعروں میں بہت مقبول تھے اور سامعین کو اپنی گرفت میں لینے کا فن جانتے تھے۔

ان کی نظم ’ماں‘ اور ایک دوسری نظم ’مہاجر نامہ‘ کافی مقبول ہوئیں۔ یہ دونوں نظمیں کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔ ماں پر ان کے اشعار مشاعروں میں کافی پسند کیے جاتے تھے۔ لیکن ان پر ماں کے رشتے کے جذباتی استحصال کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ 'آغاز' 1971 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد سرحد، مہاجرنامہ، ماں، شہ دابا اور دیگر کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ اُن کی نثری کتاب 'بغیر نقشے کا مکان' کافی مقبول ہوا۔ جنگلی پھول، سخن سرائے، چہرے یاد رہتے ہیں اور سفید جنگلی کبوتر بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔

ان کے انتقال پر مختلف شخصیات کی جانب سے اظہارِ تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ منور رانا کے انتقال سے دکھ پہنچا ہے۔ اردو شاعری کے لیے ان کی زبردست خدمات ہیں۔ وہ ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرتے ہیں۔

کانگریس پارٹی نے ان کے انتقال کو ایک عہد کے خاتمے سے تعبیر کیا۔ پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں رنج و غم کے اظہار کے ساتھ ان کے حق میں دعا کی گئی ہے۔

اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے انہی کا ایک شعر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ ’تو اب اس گاؤں سے رشتہ ہمارا ختم ہوتا ہے، پھر آنکھیں کھول لی جائیں کہ سپنا ختم ہوتا ہے۔'

دہلی اردو اکادمی کے سابق وائس چیئرمین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر خالد محمود نے ان سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے انہیں دھچکہ لگا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مشاعرے میں منور رانا کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ ان کا ایک مخصوص لب و لہجہ، مخصوص لفظیات تھیں، ان کی سوچ منفرد تھی اور پورا عہد ان کی نگاہوں میں تھا۔ وہ ہم عصر مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے تھے۔

خالد محمود نے 'ماں' پر لکھے گئے منور رانا کے اشعار کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بعد بہت سے شعرا نے ماں پر اشعار کہے۔ ماں پر ان کے اشعار ان کی شخصیت کی شناخت بن گئے تھے۔

منور رانا ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ بہت سے لوگوں کو ان کی شاعری کے مقابلے میں ان کی نثر پسند ہے۔

منور رانا کے دوست اور لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق استاد پروفیسر عصمت ملیح آبادی بھی ان کی نثر کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منور رانا کی نثر میں ادبیت ہے مگر شاعری میں نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منور رانا کو مشاعروں میں مقبولیت تو خوب ملی لیکن ان کی کوئی ادبی حیثیت قائم نہیں ہو سکی۔ البتہ اگر ان کی نثر پر کام ہوا تو اس سے انہیں ایک ادبی حیثیت ضرور حاصل ہوگی۔

منور رانا اور عصمت ملیح آبادی دونوں لکھنؤ کے استاد شاعر والی آسی کے شاگرد رہے ہیں۔

لیکن اپنے عہد کے ایک مقبول ناظم مشاعرہ انور جلالپوری نے اپنی کتاب ’روشنائی کے سفیر‘ میں ان پر تحریر کردہ اپنے خاکے ’منور رانا اپنی مثال آپ‘ میں لکھا ہے کہ "منور نے اپنی ادبی حیثیت خود بنائی۔ خدا نے ان کے علمی شعور میں ایسی صفت بخش دی جو خس و خاشاک کو زعفران اور سوکھی ہوئی لکڑی کو عود کے مدِ مقابل ٹھہرا دے۔"

عہد حاضر کے معروف ناظم مشاعرہ اور صحافی معین شاداب کے مطابق منور رانا نے غزل کو معصومیت اور تقدس عطا کیا اور وہ صنف نازک جس سے غزل صدیوں سے مکالمہ کرتی آ رہی ہے، اسے انہوں نے صرف محبوبہ ہی نہیں بلکہ ماں، بیٹی، بہن اور بہو کے طور پر بھی شناخت بخشی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ رشتوں کا حسن، بچپن کا احترام، محنت کشوں کا پسینہ، غربت کا وقار اور دیہات کی جمالیات ان کی فکر کے اجزائے ترکیبی ہیں۔

متعدد کتب کے مصنف اور لکھنؤ کے ادیب اویس سنبھلی کے مطابق منور رانا کے انتقال کے ساتھ ہی لکھنؤ اچھے شاعر و ادیب سے خالی ہو گیا۔ حفیظ نعمانی، ملک زادہ منظور احمد، شارب ردولوی اور انور جلالپوری کے بعد منور رانا کا انتقال اردو ادب و شاعری کا ایک بڑا خسارہ ہے۔

یاد رہے کہ منور رانا متنازع بیانات دینے کے لیے مشہور رہے تھے۔ ایک انٹرویو میں دیے گئے ان کے اس بیان پر کافی تنازع ہوا تھا کہ مشاعروں میں پڑھنے والی 90 فی صد شاعرات شعر ہی نہیں کہتیں۔ وہ دوسروں سے غزلیں لکھواتی ہیں۔

وہ مشاعروں کے تجارت بن جانے کے خلاف تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست اور معروف شاعر و صحافی جاوید قمر کے مطابق منور رانا کا خیال تھا کہ جو چیز کمرشلائز ہو جائے تو اس کے معیار میں کمی آئے گی اور اب مشاعرہ بھی ختم ہو چکا ہے۔

اُن کا خیال تھا کہ مشاعروں میں شاعرات اور مشاعروں کی جو بہتات نظر آتی ہے اس کے لیے سامعین کا ذوقِ سماعت بھی گنہگار ہے۔

منور رانا کی ایک بیٹی سمیہ سماجوادی پارٹی میں ہیں۔ انہوں نے 2019 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف لکھنؤ میں ہونے والے احتجاجی دھرنے میں سرگرمی سے شمولیت اختیار کی تھی۔ منور رانا نے اس احتجاج کی حمایت کی تھی۔ نتیجتاً ان کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج ہوئی اور پولیس ان سے پوچھ گچھ کے لیے ان کے گھر بھی گئی تھی۔

انہوں نے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانے کے لیے اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے خلاف بھی بیان دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے خود کو بیچ دیا۔

یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنا رہی ہے۔

چیف جسٹس پر الزام تراشی کے بعد تنازع کا شکار ہونے کے باوجود منور رانا کی شہرت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ مشاعروں کے مہنگے شاعروں میں شامل رہے ہیں۔

منور رانا کو 2014 میں ان کی نظم ’شہ دابا‘ کے لیے ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ دیا گیا تھا جسے بعد میں انہوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے خلاف بطور احتجاج واپس کر دیا تھا۔

انہیں 2012 میں اردو ادب میں قابل ذکر خدمات کے اعتراف میں ’شہید سودھا سنستھان‘ کی جانب سے ’ماٹی ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔ انہیں امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ، سرسوتی سماج ایوارڈ اور دیگر کئی ایوارڈ بھی دیے گئے تھے۔

'ماں' پر منور رانا کے چند اشعار:

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

مہاجرنامہ کے چند اشعار

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمھارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اِک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

ہماری اہلیہ تو آگئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG