امریکہ میں نیشنل فیونرل ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن نے ایک رپورٹ میں پیش گوئی کی ہے کہ 2035 تک لگ بھگ 80 فی صد امریکی اپنی آخری رسومات میں میت سوزی کا انتخاب کریں گے۔
امریکہ کی ریاست پنسلوینیا کے شہر لنکاسٹر میں 1876 میں جب مردوں کو جلانے والی پہلی کمپنی کھولی گئی تو اس کے خالق اور آپریٹر فرانسس لیموئن کو کیتھولک چرچ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
میت کو ٹھکانے لگانے کا نیا طریقہ خطرناک سمجھا جاتا تھا کیوں کہ اس سے روایتی مذہبی تدفین اور معاشرے کے اخلاق واقدار کے احساس کو خطرہ لاحق تھا۔100 سال سے بھی کم عرصے کے بعد 1963 میں مصنفہ جیسیکا مِٹ فورڈ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ’ دی امریکن وے آف ڈیتھ‘ لکھی تاکہ امریکیوں کو اپنے ان تجربات سے آگاہ کیا جا سکے کہ اس نے موت اور موت کی خوف ناک تجارت میں کیا دیکھا۔
یادگاری جنازوں کے ڈائریکٹرز، قبرستانوں اور دیگر متعلقہ پیشوں پر کڑی تنقید کرنے کے بعد انہوں نے میت سوزی کے حق میں اپنا مدعا ختم کیا ۔ تاہم 1970 تک امریکہ کی کریمیشن ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف پانچ فی صد امریکیوں نے اس طرح کی رسومات کے طریقے کا انتخاب کیا البتہ 2020 میں 56 فی صد سے زیادہ امریکیوں نے اس طریقے کو منتخب کیا۔
آخر اس قدر ڈرامائی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ ایک امریکی تاریخ دان اور مصنف نے اس کے لگ بھگ 30 برس بعد کتاب ’کیا قبرستان مردہ ہیں؟‘ میں لکھا کہ وہ جانتے ہیں کہ لوگ اپنے حالات کے لحاظ سے مختلف وجوہات کی وجہ سے میت سوزی کا انتخاب کرتے ہیں اور ان میں سے یہ تین وجوہات قبل ذکر ہیں۔
انہوں نے پہلی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کیا کہ جنازے اور زمین میں دفنانے کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اگرچہ اخراجات ، جگہ اور مقام کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ عالمی آبادی کے جائزے کے مطابق خاندان جنازوں پر اوسطاً ا آٹھ ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ریاست مسی سپی میں یہ خرچہ لگ بھگ ساڑھے چھ ہزار ڈالر ہے جب کہ ریاست ہوائی میں یہ خرچہ 15 ہزار ڈالر سے کچھ کم ہے۔
اس خرچ کا موازنہ اگر میت سوزی سے کیا جائے تو یہ ایک ہزار سےدو ہزار ڈالر تک ہے، جس میں شمشان گھاٹ یا جنازے کے ڈائریکٹر لاش کو جلانے سے آگے کوئی خدمات فراہم نہیں کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار آخری رسومات اور ان رسومات کی قیمتوں کا موازنہ کرنے والے بلاگ Partings.com میں درج ہیں۔
تاہم بہت سے لوگ کم خرچ کی آخری رسومات کا انتخاب نہیں کرتے ہیں۔ نیشنل فیونرل ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق نذر آتش کیے جانے کے ساتھ جنازے کی اوسط لاگت چھ ہزار ڈالر سے زیادہ تھی۔ یہ رقم یقینی طور پر ایک بچت ہے لیکن اتنی بڑی رقم نہیں، جس کا دعویٰ بہت سی ویب سائٹس کرتی ہیں۔
کتاب میں میت سوزی کی دوسری بڑی وجہ ماحولیاتی اثرات کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جنازے کی لاگت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے البتہ ثقافتی طریقوں میں اتنی تیزی سے تبدیلی ایک فیصلہ کن عنصر نہیں ہے۔ دوسرا اہم عنصر ،ماحولیاتی خدشات ہیں، جس میں ایک لاش کو تابوت میں رکھا جاتا ہے اور تابوت کو دفنایا جاتا ہے۔
امریکہ کے پائیدار ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے والی زمین کی تزئین کی ماہر الیگزینڈرا ہارکر نے بتایا ہے کہ اس طرح کے قبرستانوں کی تدفین کے بارے میں خدشات زمین کے استعمال سے لے کر ان طریقوں تک ہیں جن کے ذریعے لاش کو تیار کیا جاتا اور دفنایا جاتا ہے۔
کچھ لوگ تدفین کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بہت پریشان ہیں۔ ایک روایتی تدفین کے لیے جسم کو خوشبو لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لاش کو تابوت میں رکھا جاتا ہے، جو اکثر سخت لکڑی یا اسٹیل سے بنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے بہت سے مواقع پر کنکریٹ یا اسٹیل کی قبر میں اتارا جاتا ہے اور ارد گرد کے لان کو عام طور پر کیڑے مار ادویات کے استعمال سے سبز رکھا جاتا ہے۔ لگ بھگ 15 لاکھ لاشوں کی تدفین کا مطلب ہے کہ امریکہ میں ہزاروں ٹن تانبا، کانسی اور اسٹیل ، آٹھ لاکھ گیلن سے زیادہ سیال اور لاکھوں فٹ لکڑی استعمال اس عمل میں استعمال ہوتے ہیں۔
متعلقہ تشویش میں ہارکر نے نوٹ کیا کہ 2008 کے نارتھ امریکن کریمیشن ایسوسی ایشن کے سروے میں 13 فی صد لوگوں نے قبرستان کے لیے زمین کی کمی کے خدشات کی وجہ سے میت سوزی کا انتخاب کیا کیوں کہ میت سوزی کے بعد اس کی راکھ کی تدفین زمین میں پوری لاش کی تدفین کے مقابلے میں بہت کم جگہ لیتی ہے۔
خبر رساں ادرے اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق روایتی میت سوزی میں قدرتی گیس کا استعمال کرتے ہوئے جسم کو جلایا جاتا ہے، جسے ماحولیاتی طور پر اتنا حساس نہیں سمجھا جاتا جتنا کہ دوسرا مواد قرار دیا جاتا ہے ۔ قدرتی گیس ذرات اور پارا خارج کرتی ہے، خاص طور پر پرانے قبرستان میں۔
میت سوزی کی طرف رجحان تیسرا عنصر مذہبی اداروں سے لوگوں کے روابط میں کمی ہے، جو انہیں قبرستان سے دور کر دیتا ہے۔ 2021 میں 1999 کے مقابلے میں صرف 47 فی صد امریکیوں کا تعلق چرچ، عبادت گاہ یا مسجد سے تھا جب 70فی صد سے زیادہ بالغ افراد نے کہا تھا کہ وہ ان مذہبی اداروں میں سےکسی ایک سے وابستہ ہیں۔
نوجوان امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان مذہبی اداروں سے منسلک نہیں ہے جہاں ان کے دادا، دادی اور والدین نے سروسز منعقد کی ہوں گی یا جس جگہ سے جنازے قبرستان کے لیے روانہ کیے ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ میت کو جلانے کے طریقۂ کار کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے باقیات ان کے کنٹرول میں رہتی ہیں۔
بہت سے خاندانوں کے لیے، میت سوزی میں اخراجات میں کمی کے علاوہ ،سوگ منانے کی زیادہ سہولت بھی شامل ہے، جس کا ثبوت سڑک کے کنارے مزار، یادگاری ٹیٹو اور دیگر شامل ہیں۔زیادہ تر امریکی میت سوزی کو اب ایک مشق کے طور پر قبول کر رہے ہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق انہیں وہ اختیار پسند ہے جو انہیں قبرستان میں باقیات کو دفن کرنے، گھر پر رکھنے، یا جنگلوں، پارکوں، سمندروں اور ندی نالوں میں بکھیرنے کے لیے ملتا ہے۔
(اس خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)