ترکی کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین کے جنوبی ساحلی شہر اوڈیسا پر ہفتے کو ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
ترکی کے وزیرِ دفاع خلوصی آکرنے ایک بیان میں کہا کہ انہیں روس کے حکام نےآگاہ کیا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اس معاملے کی تفصیلات کو انتہائی قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
وزیرِ دفاع کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے کے اگلے ہی روز اس واقعے نے انہیں پریشان کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ یہ حملہ روس اور یوکرین کے درمیان ہفتے کو ہونے والے معاہدے کے چند ہی گھنٹوں بعد کیا گیا تھا۔اس معاہدے کے تحت عالمی خوراک کے بحران کو کم کرنے میں مدد کے لیے یوکرین لاکھوں ٹن اناج کی برآمدات دوبارہ شروع کر سکے گا۔
یوکرین کے سرکاری نشریاتی ادارے نے ملٹری کے حوالے سے بیان نشر کیا ہے کہ ساحلی شہر اوڈیسا میں اس میزائل حملے سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ میں ایک وزیرکے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ا س حملے کے باوجود اناج کی برآمدات کی کوشش جاری رہے گی۔
قبل ازیں ہفتے کو یوکرین نے ماسکو پر الزام عائد تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اناج کی برآمدات سے متعلق ہونے والے معاہدے کے ایک دن بعد روس نے اوڈیسا پر کروز میزائلوں کے ذریعے حملہ کیا۔
یوکرین کے جنوب میں آپریشنل کمانڈ کا ٹیلی گرام پر پوسٹ کردہ بیان میں کہنا ہے کہ فضائیہ نے دو میزائل مار گرائے البتہ روس کے داغے گئے دو میزائلوں سے ساحل پر بعض تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
اس حملے کی اقوامِ متحدہ کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یوکرین نے شدید مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں نوٹ کیا کہ گزشتہ روز تمام فریقین نے عالمی منڈیوں میں یوکرین کی پیدا کردہ اناج اور متعلقہ مصنوعات کی محفوظ ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے وعدہ کیا تھا۔
گوتریس کا مزید کہنا تھا کہ ان مصنوعات کی اشد ضرورت ہے تاکہ خوراک کے عالمی بحران سے نمٹا جا سکے۔
یوکرین کی اناج کی برآمدات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں موجود ضرورت مند لاکھوں لوگوں کی تکالیف اس سے کم ہو سکیں گی۔
معاہدے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس پر روس، یوکرین اور ترکی کی طرف سے مکمل عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔
یوکرین کے دارالحکومت کیف میں امریکہ کے سفیر برجٹ برنک نے اس حملے کو ‘اشتعال انگیز’ قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ روس خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، جس پر ماسکو سے پوچھ کچھ ہونی چاہیے۔
دوسری طرف یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے روس کے اقدامات کو ‘قابل مذمت’ قرار دیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ اوڈیسا پر کیے جانے والے حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ ماسکو ایسے راستوں کی تلاش میں ہے کہ اناج سے متعلق اقوام متحدہ، ترکی اور یوکرین کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوسکے۔
ٹیلی گرام پر پوسٹ کردہ ویڈیو میں زیلنسکی نے کہا ا کہ ان حملوں سے ایک چیز ثابت ہوتی ہے کہ روس جو مرضی وعدے کر لے،وہ ایسے راستے تلاش کرے گا کہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہو۔
ان میزائل حملوں سے متعلق روس کی طرف سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔روسی وزارت دفاع کی جانب سے ہفتے کو جاری کردہ بیان میں اوڈیسا پر کیے جانے والے حملے سے متعلق کچھ درج نہیں ہے۔
تاہم روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخاروا کی طرف سے اقوام متحدہ کے مذمتی بیان کو دوبارہ شیئر کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ خوف ناک ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی طرف سے بھی کیف حکومت کے ڈونباس میں بچوں کے قتل کی غیر واضح طور پر مذمت نہیں کی گئی۔