رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ آئین ہمیں فوج کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا


قومی اسمبلی کے اجلاس کا ماحول گزشتہ تین اجلاسوں سے مختلف رہا۔(فائل فوٹو)
قومی اسمبلی کے اجلاس کا ماحول گزشتہ تین اجلاسوں سے مختلف رہا۔(فائل فوٹو)

وزیرِ اعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا چوتھا اجلاس 42 منٹ تاخیر سے شروع ہوا تو پچھلے تین اجلاسوں کے مقابلے ماحول مختلف تھا۔ کیوں کہ اس بار اجلاس شروع ہوتے ہی کوئی نعرے بازی، شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی۔

اپوزیشن رہنما عمر ایوب نے سنی اتحاد کونسل کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپے کا معاملہ اٹھایا اور اس واقعے کی مذمت کی۔ حکومتی بینجز سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلی بلوچستان کو اس واقعے کا نوٹس لینے کا بھی کہا۔

اس دوران جب محمود خان اچکزئی پوائنٹ آف آڈر پر بات کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو بلاول بھٹو انہیں تقریر کا موقع دینے کے لیے اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر بات کرنے کی پاداش میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا ہے۔

اس کے بعد جب چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو تقریر کا موقع دیا گیا تو حیران کُن طور پر اس دوران کوئی شور شرابہ اور نعرے بازی نہیں ہوئی جو گزشتہ تین اجلاسوں میں ہر حکومتی رکن کی تقریر کے دوران دیکھی گئی تھی۔

جیسے ہی وزیرِ اعظم شہباز شریف ایوان میں پہنچے تو اپوزیشن کے اراکین نے پچھلے اجلاسوں کی طرح شدید نعرے بازی بھی نہیں کی۔ بلاول کی تقریر کے دوران وزیرِ اعظم ان کی تقریر کے نوٹس لے رہے تھے اور تقریر کے دوران ڈیسک بھی بجا رہے تھے۔

یہ منظر دیکھ کر بھی حیرانی ہوئی جب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران ڈیسک بجا کر انہیں داد دے رہے تھے۔

جب بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران جمشید دستی لقمے دینے اور بیچ میں بولنے لگے تو پہلے شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور اس کے بعد عامر ڈوگر نے ان کو روکا مگر جمشید دستی بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران لقمے دیتے رہے۔

بلاول کی تقریر کے دوران اس وقت ہنگامہ اور نعرے بازی شروع ہو گئی جب بلاول بھٹو نے سائفر کے ایشو بر بات کرنا شروع کی اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو مخاطب ہوتے ہوئے کڑی تنقید کی۔ اس کے بعد ایوان میں ایک بار پھر شور شرابے اور نعرے بازی کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔

سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بلاول کے قریب آ کر ’گو زرداری گو‘ کے نعرے لگانے شروع کردیے اور وہ نعرے بلاول کی تقریر ختم ہونے تک جاری رہے۔

ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کی تقریر کے دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی جانب سے مداخلت اور جملے بازی کے باعث ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔

ایم کیو ایم اور سنی اتحاد کے اراکین ایک دوسرے کی جانب بڑھے لیکن دونوں اطراف کے سینئر ارکان نے بیچ بچاؤ کرایا اور اراکین کو دست و گریباں ہونے سے روک دیا۔

قومی اسمبلی کا چوتھا اجلاس پچھلے تین اجلاسوں سے اس لیے بھی مختلف تھا کہ پہلے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ اراکین انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج اور تنقید میں صرف مسلم لیگ (ن) کو ہدف بنا رہے تھے۔ مگر چوتھے دن ان کی تنقید کا رُخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب بھی تھا۔

بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے جب تقریر کی تو اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اراکین نے بھی ان کی تقریر غور اور خاموشی سے سنی۔

سردار اختر مینگل نے اپنی تقریر کے ابتدا ہی میں محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت سے کی۔

تقریر کے دوران ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفی شاہ نے اختر مینگل کو یہ باور کرانا ضروری سمجھا کہ ’آئیں ہمیں آرمی کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔' اس پر اختر مینگل نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے سوال کیا کہ'کیا آئین آرمی کو ہماری پگڑیاں اچھالنے کی اجازت دیتا ہے۔'

اختر مینگل کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن میں لوگوں نے ووٹ کی پرچی پر مہر لگا کر اداروں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا ہے۔ جو سمجھتا ہے کہ وہ جیتا ہے ایسا نہیں۔ عسکریت جیتی ہے ہمارے یہاں ووٹ کو نہیں نوٹ اور بوٹ کو عزت ملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1970 کے انتخابات کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جاتا تو بنگلہ دیش نہیں بنتا مگر اقتدار کے خاطر ملک کا بڑا حصہ گنوا دیا گیا اس پر افسوس کرنے کے بجائے جشن منایا گیا۔ عصمت دری کے واقعات پر بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ بنگلہ دیش والے اس کو بھولے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی نے سندھ سے تعلق رکھنے والی لڑکی کی ایک کیپٹن کے ہاتھوں عصمت دری کے خلاف احتجاج کیا تو انہیں شہید کردیا گیا۔

بلاول بھٹو کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے سابق اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ سائفر کے معاملے پر سپریم کورٹ کا کمیشن بنایا جائے۔ عوام نے سازشوں اور سزاؤں کو اپنے ووٹ کے ذریعے اٹھاکر باہر پھینک دیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ مجھے کہا گیا نئی پارٹی بنائیں یا نئی پارٹیوں میں شامل ہوجائیں۔ تاہم انہیوں نے یہ نہیں بتایا کہ ایسا کس نے کہا تھا۔

ایوان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف تقریروں کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ میں کیبل پر چلنے والے کارروائی بھی بند ہو رہی تھی جس پر کچھ صحافیوں نے کہا کے منتخب حکومت میں بھی لگتا ہے کہ سینسرسپ کا مسئلہ برقرار رہے گا۔

اجلاس کے دوران عمر ایوب نے بھی اپنی تقریر لائیو نشر نہ ہونے کی شکایت کی اور سرکاری ٹی وی کے خلاف تحریکِ استحقاق جمع کرانے کے بارے میں بھی ایوان کو آگاہ کیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں جیسے ہی شیر افضل مروت نے تقریر شروع کی تو پیپلزپارٹی کی رکن شگفتہ جمانی نے کورم کی نشان دہی کردی۔

ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ حکومتی رکن کی جانب سے اپوزیشن کی تقریر کو روکنے کے لیے کورم کی نشان دہی کی جائے۔ کورم کی نشان دہی کے وقت کورم کے لیے درکار 84 اراکین موجود نہیں تھے جس کے باعث ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس 8 مارچ شام پانچ بجے تک ملتوی کردیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG