بلدیاتی انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ اس پر افواہوں، غیر مستند اور خواہشات پر مبنی بریکنگ نیوز، ان پر بیپرز اور پھر کچھ چینلز پر تجزیہ کاروں کی رائے دیکھ کر جلد ہی اُکتا گیا تو جلدی سونے ہی میں عافیت جانی۔ صبح جب آنکھ کھلی اور پہلی نظر فون پر آئے پیغام پر پڑی تو ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں رہتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ سنا چکی تھی۔ اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا رنگ اب پھیکا پڑ چکا ہے۔
غیریقینی کی فضا، گومگوں کی کیفیت اور تذبذب کا ماحول رہنے کے بعد بالآخر پولنگ کا دن دیکھنے کو تو ملا لیکن صبح کے وقت مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہم ضلع ملیر سے ضلع کورنگی اور ضلع شرقی سے ہوتے ہوئے ضلع جنوبی پہنچ گئے۔ لیکن پولنگ اسٹیشنوں کے باہر قطار تو دور کی بات گنتی کے ووٹر کے سوا سیاسی جماعتوں کے کیمپوں پر بھی سناٹا دکھائی دیا۔
خیال تھا کہ شاید ووٹر چھٹی اور پھر سرد موسم کی وجہ سے شاید دیر ہی سے گھروں سے نکلیں گے۔ لیکن دن کے 12 بج گئے اور چڑھتے سورج کے ساتھ موسم کی سرد مہری میں بھی کچھ حدت آنے لگی لیکن سیاسی ماحول میں گرم جوشی کے آثار اب بھی نہیں تھے۔
ملیر کے دیہی علاقوں، کیماڑی، اولڈ سٹی ایریا، گزری، لیاری اورنگی ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد، ابراہیم حیدری اور کچھ دیگر علاقوں کو چھوڑ کر بلدیاتی انتخابات کا ماحول پر ٹھنڈ چھائی رہی۔
کئی پولنگ اسٹیشنز میں تو ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 100 کے ہندسے تک بھی نہیں پہنچ پائی۔ ووٹرز کا اس قدر کم ٹرن آؤٹ دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں ماضی میں لاکھوں ووٹ کاسٹ ہوتے رہے ہیں۔ زیادہ دور نہیں، بلکہ سال 2013 کے عام انتخابات میں ایک حلقے سے جیتنے والے امیدوار دو لاکھ سے بھی زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔
کچھ دیر کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ اس قدر ووٹ "فرشتے" ہی ڈال سکتے ہیں تو بھی اندازہ ہوا کہ اس بار سیاسی جماعتیں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکالنے میں ایک بار پھر ناکام نظر آئیں۔
بلدیاتی انتخابات سے متعلق مسلسل بے یقینی کو بھی اس ٹرن آؤٹ کی ایک وجہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن کراچی میں نیا رجحان نہیں ہے۔ 2022 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی ملیر کو چھوڑ کر دیگر حلقوں میں ٹرن آؤٹ بمشکل 10 فی صد رہا تھا۔
اس سے قبل 2018 کے عام انتخابات میں بھی جب پی ٹی آئی، کراچی سے قومی اسمبلی کی 21 میں سے 14 نشستوں پر کامیاب ہوئی ، الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آوٹ محض 40 فی صد رہا۔ جب کہ 2013 کے عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آوٹ 55 فی صد تھا۔
اس سے پہلے کے انتخابات بھی واضح کرتے ہیں کہ شہر کی سیاست میں تشدد کے عنصر، کھلے عام انتخابی دھاندلی اور انتخابات کے دوران ہنگاموں میں درجنوں افراد کی ہلاکت نے شہریوں کو انتخابی عمل سے دور رکھا۔
اگرچہ تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ سے 2013میں عام انتخابات میں شہریوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دیے لیکن یہ جماعت بھی اپنی کارکردگی سے ووٹروں کے اس رویے کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی۔
کم ٹرن آؤٹ کی وجہ؟
وجہ تلاش کرنا اس قدر مشکل نہیں۔ ایک جانب جہاں تقریباً کراچی کی سبھی سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ گزشتہ مردم شماری میں شہر کی آبادی کو کم گنا گیا۔ اس کے دیرینہ مسائل کوحل کرنا تو دور کی بات انہیں ٹھیک طریقے سے ایوانوں میں پیش بھی نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے حکومت شہر کی ضرورت کے مطابق وسائل فراہم کرنے میں ناکامی ہوئی۔ وہیں سیاسی جماعتیں الطاف حسین سے لاتعلقی اختیار کرنے والی ایم کیو ایم کی سیاسی پسپائی سے پیدا ہونے والے خلا کو اب تک پُر نہیں کرسکیں۔
اگرچہ ناقدین کراچی پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مضبوط سیاسی گرفت کو طاقت کی مرہونِ منت قرار دیتے ہیں۔ شہر میں اس طرزِ سیاست کو ریاستی سرپرستی حاصل ہونے کا تاثر بھی بہت گہرا تھا۔
لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ شہر میں 2013 کے بعد سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد بڑی حد تک دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان اور بھتہ وصولی جیسے سنگین نوعیت کی وارداتوں میں کمی تو واقع ہوئی ہے لیکن شہریوں کا احساسِ تحفظ کیوں بحال نہیں ہورہا؟
ہر روز بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں اور ان میں شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات پر ہر شہری خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔اس کے خیال میں صوبے میں برسر اقتدار جماعت شہر میں مکمل طور پر قانون کی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب کراچی کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والے بھی حکومتی ایوانوں میں شہر کے سلگتے مسائل پر آواز نہیں اٹھا سکے۔
سال 2005 سے کراچی کے لیے پانی کی ایک بوند میں اضافہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ شہر میں گیس کی قلت اپنے عروج پر ہے۔انفرااسٹرکچر اس قدر بدحال ہوگیا کہ کراچی کئی برسوں سے مسلسل دنیا میں رہائش کے لیے10 بدترین شہروں کی فہرست سے نہیں نکل سکاہے۔
گزشتہ دہائیوں میں شہر نے کئی سیاسی کروٹیں بدلیں لیکن شہر میں پولنگ اسٹیشنز پر ووٹروں کے انتظار میں اونگھتے ہوئے عملے کو دیکھ کر یہی محسوس ہوا کہ تبدیلی، مذہب، قومیت کے نعروں اور ترقی، امن اور خوشحالی کے وعدوں کے باوجود مجموعی طور پر سیاسی جماعتیں کراچی کے شہریوں کو ووٹ کے لیےبڑی تعداد میں گھروں سے باہر لانے میں ناکام رہی ہیں۔
آج کا کراچی ماضی کے کراچی سے مختلف ہوچکا ہے اور یوں لگتا ہے کہ لیڈرشپ کے بحران نے اب شہریوں کو اپنے مسائل سے بھی بے گانہ کردیا ہے۔