|
آزادی صحافت کی علمبردار تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز نے پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف حزب اختلاف کی ریلی کی رپورٹنگ کے بعد مقدامات دائر کرنے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ان کے خلاف 'بے بنیاد' الزامات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ مطیع اللہ جان کو 27 نومبر کو اسلام آباد سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرے اور اس کے خلاف حکومتی اقدامات پر رپورٹ کر رہے تھے۔
اگرچہ صحافی کو گرفتاری کے تین دن بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے تاہم انہیں اب بھی ایک پولیس افسر کے خلاف تشدد، جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے، اسلحہ چھیننے اور منشیات رکھنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
آر ایس ایف کے مخفف سے پکاری جانے والی بین الاقوامی تنظیم نے مطیع اللہ جان کے خلاف الزامات کو "بے بنیاد" اور "عدالتی ہراسانی" قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں تنظیم نے کہا،" رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اس عدالتی ہراسانی کی شدید مذمت کرتی ہے اور صحافی کے خلاف الزامات کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔"
تنظیم کی جنوبی ایشیا کی چیف سیلیا مرثیئر نے کہا ہے کہ مطیع اللہ جان فوج اور حکومت کے ناقد ہیں اور "ان کے خلاف لگائے گئے مضحکہ خیز الزامات انہیں بدنام کرنے اور خاموش کرنے کی حکام کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔"
انہوں نے زور دیا کہ بقول ان کے اس ’عدالتی ہراسانی‘ کا خاتمہ ضروری ہے اور صحافیوں کو سیاسی احتجاج پر رپورٹ کرنے کے حق کی ضمانت دی جائے۔
صحافی مطیع اللہ جان گزشتہ کچھ عرصے سے اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں۔
وہ اکثر اسلام آباد میں سیاست دانوں اور صحافت سے وابستہ شخصیات سے چلتے پھرتے ہوئے انٹرویوز لیتے ہیں اور ان سے سخت سوالات کرتے ہیں۔
رواں ہفتے اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران بھی وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے ویڈیوز اپ لوڈ کرتے رہے ۔
ماضی میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں مطیع اللّہ جان کو 21 جولائی 2020 کو اسلام آباد سے 'نامعلوم افراد' ایک اسکول کے قریب سے اٹھا کر لے گئے تھے۔
اغوا کارں نے بعد میں اُنہیں راولپنڈی سے 30 کلو میٹر دور فتح جنگ کے مقام پر گاڑی سے باہر چھوڑ دیا۔
ان کے اغوا پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا تھا اور سیکیورٹی اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔
فورم