|
ویب ڈیسک — طالبان کے تحت کام کرنے والے افغانستان کے پاکستان میں سفارت خانے نے پاکستانی حکام کی جانب سے اسلام آباد میں ہونے والے سیاسی احتجاج میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے بیانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سفارت خانے نے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور دیگر حکام کی جانب سے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج سے متعلق بیانات میں افغان شہریوں کا حوالہ دیا جارہا ہے جس سے یہ تشویش پیدا ہوگئی ہےکہ اسے بنیاد بناتے ہوئے افغان پناہ گزینوں کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے دار الحکومت میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ ہفتے اپنے قائد اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے مظاہرین کو روکنے کے لیے حکومت نے اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر حصوں میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور سیکیورٹی اہلکاروں کی بھارتی نفری تعینات کی گئی تھی۔
ان رکاوٹوں کے باوجود وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کے علی امین گنڈا پور اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں کے پی سے آنے و الا قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب سیکیورٹی اہل کاروں نے مظاہرین کو منتشر کردیا تھا اور اس دوران شدید شیلنگ اور فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اس دوران کئی مواقع پر یہ کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں افغان شہری شامل ہیں اور پرتشدد واقعات میں بھی ملوث ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا تھا کہ افغان باشندے بغیر این او سی اسلام آباد نہیں آ سکیں گے۔
حکومت ماضی میں بھی پی ٹی آئی کے احتجاج میں افغان پناہ گزینوں کی شرکت اور ان کی جانب سے املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کرتی رہی ہے۔
پی ٹی آئی ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے اور اس سے متعلق مکمل تحقیقات کا مطالبہ بھی کرتی آئی ہے۔
افغان سفارتے خانے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغان پناہ گزین کبھی سیاسی سرگرمیوں یا جرائم میں ملوث نہیں رہے۔ البتہ افغان پناہ گزین پہلے ہی پاکستان کی گزشتہ نگراں حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سخت پابندیوں اور بے یقینی کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ آئندہ بھی کسی سیاسی تنازع یا احتجاج میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایسا ماحول پیدا کرنے سے گریز کرے جس کے باعث پناہ گزینوں کے خلاف بد اعتمادی میں اضافہ ہو۔ یہ ماحول افغان پناہ گزینوں کو مزید ہراساں کرنے، بدنامی اور جبری منتقلی کا باعث بن سکتا ہے۔
افغان سفارت خانے کا کہنا ہے ایسی پالیسیاں پاکستان کے مفاد میں نہیں بلکہ اس سے دونوں ہمسایہ ممالک میں بد اعتمادی مزید بڑھے گی۔
پاکستان کی جانب سے دہشت گردی میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے مطالبات اور سرحد پر نقل و حرکت سے متعلق اقدامات پر پہلے ہی افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔