بھارت کی جانب سے پاکستان میں مبینہ غلطی سے فائر ہونے والے میزائل کے واقعے پر ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا واقعہ رونما ہونے کے لیے ایک سے زیادہ مراحل پر غلطی سرزد ہوئی ہوگی۔ اور 48 گھنٹے بعد غلطی کا اقرار مایوس کن امرہے۔ لیکن ایسی غلطیاں ماضی میں دوسرے ممالک میں بھی ہوئی ہیں۔
اب تک کی تحقیق کے بعد اگرچہ بھارت نے تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ جمعرات کو پاکستان کے علاقے میاں چنوں میں گرنے والا میزائل اسی کا تھا، اور کہا ہے کہ یہ غلطی تکنیکی خرابی کے سبب ہوئی لیکن بھارت نے ابھی تک اپنی تحقیقات سے متعلق پاکستان کو تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ڈائریکٹر آف سٹریٹجی، ٹیکنالوجی اینڈ آرمز کنٹرول میں ڈائریکٹر آف سٹریٹجی کے طور پر کام کرنے والے ولیم البرکی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جیسے بھارتی کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ معمول کی مینٹینینس کے دوران ہوا، تو بقول ان کے، اس سے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اس طرح کے میزائل کو لانچ کیے جانے میں کئی عدد غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی۔
میزائل لانچ کرنے کے مراحل کیا ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اگر صرف تھیوری کی حد تک ہی دیکھیں تو اس عمل کے لیے آپ کو کمپیوٹر پر ٹارگٹ لاک کرنا ہے، میزائل کو ہدف دینا ہے، میزائل کی باڈی کو پاور اپ کرنا ہے تاکہ وہ تمام نظام کو وارم اپ کرے اور وہ جانے کے لیے تیار ہو، پھر اس کی ٹریجیکٹری یعنی راستہ بھی آپ کو دیکھنا ہے، کچھ میزائلوں کے لیے آپ کو پلگ کھینچنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سسٹم چیک کرنے کے لیے اسے مینٹیننس کےدوران پاور اپ کیا ؛ جب کہ کسی نے غلطی سےاسے لانچ کر دیا۔
میزائل کے غلطی سے لانچ ہونے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یہ ٹیسٹنگ فیسلٹی ہے تو وہاں لانچ اتھارٹیز کے پاس زیادہ اجازتیں ہو سکتی ہیں،لیکن اگر یہ ایکٹیو میزائل ہو تو پھر اس کے لانچ پروٹوکول بہت مختلف ہوں گے۔
بقول ان کے میزائل تجربے کے دوران ایسا ہو جاتا ہے کہ میزائل غلط سمت اختیار کرلے یا غلط جانب چلاجائے۔
ایسے موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی میزائل غلطی سے کسی دوسرے ملک چلا جائے تو اس سلسلے میں بین الاقوامی طور پر کیا ضوابط موجود ہیں۔
میزائل لانچ سے متعلق رابطہ کاری کے عالمی ضوابط کیا ہیں؟
بین الاقوامی طور پر ایک تنظیم، جسے دی ہیگ کوڈ آف کنڈکٹ کہا جاتا ہے، موجود ہے۔ 143 ممالک اس کے رکن ہیں۔ ان رکن ممالک کو میزائل کے تجربے سے پہلے ہمسایہ ممالک کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔
نیو لائینز انسٹی ٹیور فار سٹریٹجی اینڈ پالیسی کے انالیٹکل ڈولپمنٹ کے ڈائریکٹر کامران بخاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں کوئی بین الاقوامی فورم نہیں ہے اور زیادہ تر ایسے معاملات دو طرفہ ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے پاکستان اور بھارت کا بھی ایک پروٹوکول ہے جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کو تجربے سے پہلے مطلع کر دیتے ہیں۔ لیکن، ان کے بقول، یہ دو ممالک زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو ہی بتائیں گے، یا شاید چین کو، لیکن دور دراز کے ممالک جیسے امریکہ ہے اسے بتانے کی ضرورت موجود نہیں ہے۔
ولیم البرکی نے کہا کہ امریکہ اور روس کے درمیان ایک خفیہ چینل ہے جسے نیوکلئیر رسک رڈکشن سینٹر کہتے ہیں۔ اس چینل کے ذریعے رابطے ہو جاتے ہیں لیکن اس کی ہمیں تب تک اطلاع نہیں دی جاتی جب تک کہ کوئی پارٹی ریکارڈ پر نہ آئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی منصوبے کے تحت میزائل تجربہ ہو جو بین الاقوامی پانیوں کے اوپر سے گزر رہا ہو تو پھر ایک نوٹیفیکیشن جسے نوٹس ٹو ائیر مین کہتے ہیں دینا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد مسافر جہازوں اور بحری جہازوں کے کپتانوں کو بتانا ہوتا ہے کہ کسی مخصوص علاقے سے وہ دو رہیں کیونکہ میزائل وہاں سے گزرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی یہ غلطی ہوئی تھی بھارتی اہلکاروں کو اس کی اطلاع پاکستان کو دینی چاہتے تھی۔ اظہار تفنن کے طور پر انھوں کہا کہ ’’شاید یہ ایسا عجیب لمحہ ہو کہ سب بس کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں کہ یہ ہو کیا گیا ہے ہم سے؟‘‘
ماضی کی مثال دیتے ہوئے ولیم البر کی نے کہا کہ سرد جنگ کے دوران 15 ایسے واقعات ریکارڈ پر ہیں جب امریکہ نے غلطی سے کہیں جوہری بم پھینک دیا یا کوئی طیارہ جس میں بم تھا کریش کر گیا۔ جب کہ دو برس پہلے ایک سپین کے ایک ایف سکسٹین طیارے نے ایسٹونیا میں غلطی سے اپنے میزائل چلا دیے تھے۔
کامران بخاری نے کہا کہ جنوبی کوریا میزائل ٹیکنالوجی میں بھارت سے بہت پہلے سے کام کر رہا ہے۔ اس میں ان کے کئی حادثے ہوئے ہیں۔ ایران میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹیکنالوجی کو آپ نے ابھی خرابی سے پاک نہیں کیا۔ اس کے لیے آپ کو مسلسل تجربات کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی کے میزائل میں نقص پیدا کرنا ممکن ہے؟
اس امکان پر کہ کیا کسی ملک کے میزائل نظام میں کوئی دوسرا ملک جاسوسی کے ذریعے نقص پیدا کر سکتا ہے تو کامران بخاری کا کہنا تھا کہ اس میں دو پہلو ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ دوسرے ملک کی انٹیلیجنس ایجنسی نے کوئی ’’بگ‘‘ ڈال دیا ہو ، یا سائبر اٹیک کیا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ یہ چیز ہم نے 2010 سے لے کر اب تک بہت زیادہ دیکھی ہے۔اور اس کے لیے اسرائیل کی مثال دی جن نے سٹکس نیٹ وائرس کے ذریعے ایران کی بہت سی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے۔
براہموس میزائل کے پاکستان میں گرنے سے کیا پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
اس سوال پر ولیم البرکی کا کہنا تھا کہ ’’یہ پاکستانی میزائل بنانے والوں کے لیے کرسمس کا دن ہوگا۔‘‘ ان کے بقول، اس ملبے میں آپ کو ہر قسم کی معلومات مل سکتی ہیں، جیسے کس قسم کے سرکٹ آپ کو ملتے ہیں، کیا دھاتیں اس میں استعمال ہوئی ہیں، اور اس کے مواد پر ہر قسم کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ ملبہ ہے لیکن اس میں سے بہت کچھ ہے جسے ’’ریورس انجنئیر‘‘ کیا جا سکتا ہے۔