پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حالیہ مہلک دہشت گرد حملوں کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نا صرف مشتبہ افراد کے خلاف اپنی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے بلکہ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں مقیم پاکستان کے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کی نگرانی بھی شروع کر دی ہے۔
اگرچہ اس بارے میں انتظامیہ کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان تو جاری نہیں کیا گیا لیکن قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک قانون ساز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُنھیں گزشتہ چند روز سے اس طرح کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور سیاسی حلقوں نے اس صورت حال پر تشیوش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی ’فاٹا‘ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نگرانی غیر مناسب اقدام ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے ملک کے مختلف علاقوں اور خاص طور پر راولپنڈی ڈویژن میں مقیم فاٹا سے تعلق رکھنے والے افراد کی روزمرہ کی سرگرمیوں کی نگرانی شروع کر نے کے ساتھ ساتھ ان سے متعلق تفصیلات بھی جمع کرنا شروع کر دی ہیں۔
انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ صرف فاٹا سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ان کے بقول نہایت تشیوش کی بات ہے۔
"یہ بالکل مناسب نہیں ہے کیونکہ جب تک کسی کے اوپر جرم ثابت نہیں ہوتا ہے۔۔۔تو یہ ایک غیر امتیازی سلوک ہے۔ وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں اور فاٹا سے آ کر انہوں نے راولپنڈی میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ان کا حق ہے۔"
باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقے کے لوگ تو خود دہشت گردی کا زیادہ شکار رہے ہیں۔
"آپ پوری قوم کو مشتبہ نظر سے دیکھیں تو یہ مناسب طریقہ نہیں ہے۔۔۔ اس سے ہم لوگوں کے دل اور ذہن نہیں جیت سکتے ہیں۔۔۔ اور نا ہی ہم اس چیز سے (دہشت گردی) پر قابو پا سکتے ہیں۔"
زہرہ یوسف نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے عوام کا تعاون بہت ضروری ہے۔
"بالکل اس بات کی ضرورت ہے جب تک اس قسم کے آپریشن میں شہریوں کی حمایت نہیں ہو گی۔۔۔ (دہشت گردی کے خلاف) آپریشن میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔
تاہم حکام اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ صرف فاٹا سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ صرف انہیں افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے جن کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہونے والے متعدد مہلک حملوں کے بعد ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانی والی کارروائیوں میں ایک سو سے زائد افراد کو ہلاک اور سینکڑوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔