پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کی سوانح عمری 'سلطان' میں نت نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ سابق کپتان نے اس کتاب میں جہاں اپنے کریئر کے اُتار چڑھاؤ کا تذکرہ کیا ہے وہیں اس انوکھے واقعے کا بھی ذکر کیا جب ایک دن کے لیے اُن کے والد کو اغوا کر لیا گیا۔
آسٹریلوی اسپورٹس صحافی گیڈین ہیگ کے اشتراک سے لکھی گئی یہ خود نوشت گزشتہ کئی ماہ سے خبروں میں ہے اور حال ہی میں پاکستان میں اس کا ایڈیشن منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے کرکٹ میں دلچسپی سے لے کر ریٹائرمنٹ کے بعد کے واقعات کو بیان کیا۔
وسیم اکرم نے اس کتاب میں جہاں اپنے کریئر کے آغاز میں عمران خان سے قربت کے فوائد بیان کیے وہیں اپنے خلاف ہونے والی بغاوت ، پانچ ورلڈ کپ ایونٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور اپنے محسن جاوید میانداد سے دور ہونے کی وجوہات کا بھی ذکر کیا۔
سن 1996 کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل کے بعد ان کےوالد کا اغوا ہونا ہو، 2003 میں ریٹائرمنٹ کے بعد کوکین کی لت میں پڑ جانا اور پھر اس سے جان چھڑانے میں ان کی پہلی بیوی ڈاکٹر ہما کی کوشش۔ ان سب پر سابق کپتان نے اپنی کتاب میں کھل کر بات کی۔
وسیم اکرم نے اپنے والدین کی علیحدگی اور کرکٹ میں انٹری، میچ فکسنگ، بال ٹیمپرنگ الزامات، اپنی صحت، اپنی پہلی اہلیہ ڈاکٹر ہما کے انتقال، موجودہ بیوی شنیرا سے ملاقات سمیت کئی واقعات کھل کر بیان کیے ہیں۔
'جوجو' کون تھا اور اس نے وسیم اکرم کے کریئر کو کیسے نقصان پہنچایا؟
'سلطان' میں وسیم اکرم لکھتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ یہ افسوس رہے گا کہ اپنی پہلی اہلیہ کی تنبیہ کے باوجود اُنہوں نے اپنے دوست جوجو سے بروقت قطع تعلق نہیں کیا۔ وسیم اکرم نے اعتراف کیا کہ اگر وہ اپنی مرحومہ اہلیہ ہما کے مشورے پر عمل کرتے تو شاید مصیبت سے بچ جاتے۔
ان کے بقول جوجو اور اس کے بھائی راجہ کو وہ کرکٹر بننے سے پہلے سے جانتےتھے اور ان سے قربت کا یہ عالم تھا کہ وسیم اکرم کی پہلی شادی کےتمام انتظامات بھی اسی نے کیے تھے۔ لیکن ان کی اہلیہ ہما کو وہ بالکل پسند نہیں تھا، وسیم اکرم کو شک تھا کہ ان سے قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوجو نے کئی میچوں پر پیسہ لگایا اور نقصان ہونے پر سارا الزام ان پر عائد کر دیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسی میچ فکسنگ کی وجہ سے ان کے والد کو بھی ایک روز کے لیے لاہو ر میں ایک اناڑی رکشہ ڈرائیور نے اغوا کیا۔
وسیم اکرم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس شخص نے ان کے والد کو کار سے نکلتے ہوئے بندوق دکھا کر اغوا کیا تھا۔ لیکن جب ایک دن کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ آگے کی حکمتِ عملی اس کے پاس نہیں تو انہیں چھوڑ دیا۔
وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ ان کے والد نے ان سے اس واقعے کو چھپائے رکھا لیکن جب انہیں اس کا پتا چلا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ وہ رکشہ والا جسے بعد میں پولیس نے حراست میں لے لیا تھا، عدالت سے ضمانت کے بعد روپوش ہوگیا تھا۔ تاہم اس واقعے کے بعد وسیم اکرم کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کس دوست سے انہیں دور رہنا ہے اورکس سے نہیں۔
وسیم اکرم یہ بھی لکھتے ہیں کہ انہیں بہت دیر میں اندازہ ہوا کہ ان سے دوستی کی وجہ سے جوجو ایک جواری سے بک میکر بنا۔ انہیں اس سےبھی زیادہ افسوس اس وقت ہوا جب اس نے جسٹس قیوم کمیشن کےسامنے جاکر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
یہاں انہوں نے نوجوان کرکٹرز کو مشورہ دیا کہ جو غلطی ان سے سرزد ہوئی اس پر وہ پشیمان ہیں اور اس کتاب میں اس معاملے کا ذکر کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ اپنے مستقبل کی خاطر ان لوگوں سے دور رہیں جنہیں وہ ٹھیک نہیں سمجھتے۔
'سن 1996 میں کوارٹر فائنل نہ کھیل کر تنقید ہوئی، 1999 میں فائنل کھیل کر'
پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی کرکٹرز آئے، اس میں وسیم اکرم کئی لحاظ سے منفرد تھے۔ و ن ڈے اورٹیسٹ کرکٹ میں دو، دو ہیٹ ٹرک، 1992 کے ورلڈ کپ سمیت کئی ٹورنامنٹ جیتنا اور ایک ٹیسٹ اننگز میں سب سے زیادہ چھکے مارنے کا ٹیسٹ ریکارڈ ان کے پاس ہے۔
لیکن ان کے خیال میں ان کو میچ فکسنگ میں بلاوجہ گھسیٹا گیا جس کی وجہ سے ان کا نام بدنام ہوا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں 1996 کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم ممبرز جانتے تھے کہ وہ اس اہم میچ سے قبل ان فٹ تھے۔لیکن جب ان کی غیر موجودگی میں پاکستان کو شکست ہوئی تو انہیں موردِ الزام ٹھہرادیا گیا۔
انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ وہ میچ میں کپتان نہیں تھے اس لیے شکست کے بعد اپنے کمرے میں ہی تھے۔ لیکن اعجاز احمد کے کہنے پر انہوں نے باہر نکل کر میچ میں شرکت کرنے والے وکٹ کیپر راشد لطیف اور کپتان عامر سہیل کی گفتگو سنی جس پر وہ شکست کا ملبہ ان کے اوپر ڈالنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
انہوں نےاس کتاب کے ذریعے مداحوں سے سوال کیا کہ نہ تو اس میچ میں سلو اوور ریٹ اور سلو بیٹنگ کے ذمہ دار وہ تھے، نہ انہوں نے 15 وائیڈ اور چار نو بالز پھینکیں اور نہ ہی غصہ میں آکر انہوں نے اپنی وکٹ تھرو کی۔لیکن جب شکست کا ذمے دار ڈھونڈنے کی بات آئی تو ان کو آگے کردیا گیا جو اس لیے زیادتی ہے کیوں کہ وہ اس میچ کا حصہ ہی نہیں تھے۔
اسی طرح 1999 کے ورلڈ کپ میں انہوں نے بنگلہ دیش کےخلاف شکست کی وجہ خود اعتمادی اور فائنل میں خراب کرکٹ کو قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ٹیم میں موجود تمام کھلاڑی ورلڈ کپ جیتنا چاہتے تھے۔ لیکن آسٹریلوی ٹیم اچھا کھیل کر جیتی۔ ان کے خیال میں میچ کا نتیجہ یکطرفہ تھا ، میچ کے دوران سعید انور کی جانب سے بیٹ کی گرپ بدلنےکو انہوں نے ایک انوکھا واقعہ قرار تھا ۔
سن 1999 کے ورلڈ کپ فائنل کے بارے میں وسیم اکرم نےمزید کہا کہ اس روز پاکستان ٹیم کے ڈریسنگ روم میں کئی غیر ضروری افراد موجود تھے جن کی وجہ سے لیگ اسپنر مشتاق احمد اور اسسٹنٹ کوچ رچرڈ پائی بس کو بھی لارڈز کے ڈریسنگ روم میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی۔
انہوں نے اس کتاب میں جاوید میانداد کے حوالے سے بھی کئی انکشافات کئے ، ایک طر ف انہوں نے کرکٹ ٹیم میں آمد کا کریڈٹ سابق کپتان کو دیا تو وہیں بطور کوچ میچ جیتنے کے بعد ملنے والی رقم میں حصہ مانگنے اور ایک بار زبردستی قران پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کی ضد کا بھی ذکر کیا۔
وسیم اکرم نے 'سلطان' میں جن کھلاڑیوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا اس میں سابق کپتان عمران خان، سابق آل راؤنڈر مدثر نذر، وکٹ کیپر معین خان،ساتھی کھلاڑی اعجاز احمد ، مینیجر یاور سعید اور سابق بورڈ چیئرمین خالد محمود کے نام شامل ہیں۔
انہوں نے خالد محمود کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو نہ وہ اور ان کے ساتھی کھلاڑی ویسٹ انڈیز میں بلاوجہ گرفتار ہونے کے بعداتنی جلدی رہا ہوتے اور نہ ہی 1999 کے ورلڈ کپ سے قبل ان کا کم بیک ہوتا۔
اسی کتاب میں سابق کپتان نے سابق ساتھی کھلاڑی رمیز راجہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بطور کھلاڑی انہیں ان کے کمشنر والد کی وجہ سے سلپ میں کھڑا کیا جاتا تھا۔
نہوں نے سابق مینیجر ہارون رشید کے ہر فیصلے کو میچ فکسنگ سے جوڑنے کی عادت ، سابق بورڈ عہدیدار ماجد خان کی ان سے بلاوجہ نفرت اور چیئرمین توقیر ضیا کی اُن کے بقول آمرانہ ذہنیت اور یکطرفہ فیصلوں کو بھی اپنے اور پاکستان کرکٹ کے لیے خطرناک قرار دیا۔
آخر وسیم اکرم کو دوسری مرتبہ سوانح عمری لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
یہ پہلا موقع نہیں جب وسیم اکرم نے سوانح عمری لکھی ہو، اس سے قبل 1998 میں بھی وہ 'وسیم' نامی ایک کتاب لکھ چکے تھے جس میں انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں میچ فکسنگ پر بات کی تھی کیوں کہ اس وقت جسٹس عبدالقیوم کے تحت ہونے والے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی تھی۔
دونوں کتابوں میں کئی باتیں مشترک ہیں جیسے عمران خان اور جاوید میاںداد کی ان کے کریئر میں اہمیت، 1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی اور اس کے بعد عمران خان کی تقریر ، زمبابوے کے خلاف ان کی 257 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز اور اپنے خلاف ہونے والی بغاوت اور اس کے بعد دوبارہ کپتان بننا قابلِ ذکر ہیں۔