مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبِ علم مشال خان کے قتل کیس میں بری ہونے والے ملزمان کے خلاف مقتول کے بھائی ایمل خان نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔
ایبٹ آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے گزشتہ ہفتے مشال خان قتل کیس میں 26 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ ایک ملزم کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید اور 25 ملزمان کو چار، چار سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔
مشال خان قتل کیس میں ان کے والد کی پیروی کرنے والے وکلا کے پینل میں شامل بیرسٹر امیر اللہ خان چمکنی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ فی الوقت صرف بری ہونے والے ملزمان کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہے جبکہ باقی ملزمان کو دی جانے والی سزاؤں کے خلاف آئندہ چند روز میں علیحدہ اپیل دائر کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ مشال خان کو ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ایک غیر قانونی ہجوم کے ذریعے قتل کیا گیا تھا لہذا یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ اس قتل میں ایک بندہ ملوث ہے۔
پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیل میں بری ہونے والے ملزمان کے خلاف مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان افراد کے خلاف شہادتوں کا موازنہ درست اور ٹھیک طریقے سے نہیں کیا گیا جبکہ ملزمان کی نشاندہی ویڈیوز کے ذریعے بآسانی کی جا سکتی ہے۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ ان ملزمان کو بری کرنے کے عدالتی فیصلے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ دائر کردہ اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بری ہونے والے بعض ملزمان نے رہائی کے بعد مردان انٹر چینج رشکئی پر استقبال کے لیے آنے والے لوگوں سے خطاب میں اپنے جرم کا اعتراف کیا۔
اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ بری ہونے والے ملزمان کے بارے میں انسدادِ دہشت گردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور ان ملزمان کو سخت سزا سنائی جائے۔
مشال خان قتل کیس میں رہائی پانے والے ملزمان کا نہ صرف 7 فروری کو مردان پہنچنے پر والہانہ استقبال کیا گیا تھا بلکہ مختلف مذہبی جماعتوں کے مقامی اتحاد 'متحدہ دینی محاذ' کی طرف سے سزا پانے والے مجرموں کے حق میں مردان میں ایک جلوس بھی نکالا گیا تھا۔
مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے رہنماؤں نے بھی سزا پانے والے مجرموں کی رہائی اور ان کی سزاؤں میں تخفیف کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالبِ علم مشال خان کے قتل میں ملوث چار ملزمان ابھی تک روپوش ہیں جن میں صوبے میں حکمران پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والا ایک کونسلر بھی شامل ہے۔
جب کہ سزا یافتہ ملزمان میں مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد کے علاوہ قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی ذیلی تنظیم پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن بھی شامل ہیں۔