انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانون دانوں نے مبینہ گائے محافظوں کے ہاتھوں اکبر خان نامی ایک مویشی تاجر کے قتل کے کیس میں راجستھان کی ایک عدالتی فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس مقدمے میں چار ملزمان کو سات سات سال قید اور ایک ملزم کو بری کیا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سزا بہت کم ہے۔
ماب لنچنگ یا گائے کے تحفظ کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کیے جانے والے متعدد واقعات کا یہ دوسرا کیس ہے جس میں سزا سنائی گئی ہے۔ قبل ازیں 2018 میں ریاست جھارکھنڈ میں رام گڑھ کی ضلعی عدالت نے ایک مویشی تاجر علیم الدین انصاری کے قتل کے معاملے میں 11 مبینہ گائے محافظو ں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ملزمو ں کو بے ارادہ قتل کی دفعہ 304 کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔ جب کہ انھو ں نے جان بوجھ کر ایک شخص کا قتل کیا تھا۔ ان کو دفعہ 302 کے تحت سزاسنانی چاہیے تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 2014 کے بعد گائے کے تحفظ کے نام پر شدت پسند ہندوؤں کے ہجوم کے ہاتھوں سینکڑوں بے قصوروں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ لیکن بہت کم لوگوں کو سزا سنائی گئی ہے۔
انھوں نے اکبر خان کے اہل خانہ کے اس اعلان کی حمایت کی کہ وہ سزا میں اضافے کی غرض سے ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ان لوگوں نے اچھا وکیل نہیں کیا تو وہاں بھی ایسا ہی فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔
ان کے خیال میں اس قسم کے جرائم کرنے والوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ انھو ں نے 2018 میں ایسے ہی ایک معاملے میں سنائے گئےفیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ عمر قید کی سزا بھگتنے والے ملزموں کو جب ضمانت پر رہا کیا گیا تو اس وقت کے مرکزی وزیر جینت سنہا نے ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل محمود پراچہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ دراصل ایسے کیسز میں پولیس کی تحقیقات میں خامی ہوتی ہے۔ پولیس جان بوجھ کر کیس کو کمزور کر دیتی ہے۔ وہ ملزموں کے خلاف ہلکی دفعات نافذ کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے عدالتیں یا تو کم سزا سناتی ہیں یا پھر ملزموں کو بری کر دیتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 2020 میں دہلی میں ہونے والے فسادات کے معاملات میں بھی پولیس نے یہی کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پولیس نے شکایت کرنے والے مسلمانوں کو ہی ملزم بنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے پولیس والوں کے خلاف عدالت کا رخ کرنا چاہیے جو جان بوجھ کر کیس کو کمزور کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی پولیس والوں کے خلاف عدالت میں شکایت کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں ان کی باتوں کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پولیس سیاسی شخصیات کے دباؤ میں کیس کو کمزور کرتی ہے۔ جب کہ ملزم اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کے خلاف سخت دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرتی ہے۔
ان کے مطابق ایسے اکا دکا فیصلوں سے اس نوعیت کے جرائم نہیں رکیں گے۔ جب تک ان عناصر کو سیاسی سرپرستی حاصل رہے گی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
سخت سزا کا مطالبہ
مقتول اکبر خان کی اہلیہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کلیدی ملزم نول کشور کو بری کیا جانا اور دیگر ملزموں کو صرف سات سات سال کی سزا سنایا جانا افسوس ناک ہے۔یہ انصاف نہیں ہے۔ سزا اور بڑھائی جائے۔ ان لوگوں نے میرے شوہر کا قتل کیا تھا۔
اکبر خان کے اہل خانہ کے مطابق ملزموں کو قتل کے جرم میں نہیں بلکہ بے ارادہ قتل کے جرم میں سزا ہوئی ہے جو کہ ناکافی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بری کیا جانے والا شخص ہی ہجوم کی قیادت کر رہا تھا۔
مقتول کے اہل خانہ نے سزا میں اضافے اور قتل کے جرم میں سزا سنائے جانے کے سلسلے میں اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تعزیرات ہند کی قتل کی دفعہ 302 کے تحت کم سے کم سزا عمر قید ہوتی ہے۔ جب کہ بے ارادہ قتل کے دفعہ 304 کے تحت کم سے کم سزا 10 سال کی قید ہوتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملک میں گائے کی اسمگلنگ ایک مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن گائے کے تحفظ کے نام پر تشکیل پانے والے گروپوں کی جانب سے مویشی لے جانے والوں پر حملے اور ان کے قتل کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اٹھائیس سالہ اکبر خان ہریانہ کے نواح کے رہائشی تھے۔ وہ 20-21 جولائی 2018 کی شب میں ایک دوسرے شخص اسلم خان کے ساتھ پیدل دو گائیں لے جا رہے تھے کہ الور میں رام گڑھ پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والے گاؤں لال ونڈی میں مبینہ گائے محافظوں نے ان پر حملہ کر دیا۔
اس حملے کے بعد اسلم فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن ہجوم نے اکبر خان پر تشدد کیا اور پویس کے حوالے کر دیا۔ اکبر زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔
عدالت نے جن ملزموں کو سزا سنائی ہے ان کے نام دھرمیندر یادو، پرم جیت، ونے کمار اور نریش کمار ہیں۔ جب کہ ایک ملزم نول کشور کو جو کہ شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے مقامی رہنما ہیں، ثبوتوں کے فقدان کی بنیاد پر بری کر دیا ہے۔
خصوصی سرکاری وکیل اشوک شرما کا کہنا ہے کہ اگر چہ وہ فیصلے سے خوش ہیں لیکن سزا کافی نہیں ہے۔
دوسرے خصوصی سرکاری وکیل ناصر علی نقوی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کو لکھ رہے ہیں کہ وہ ہائی کورٹ میں اپیل کرے۔ ملزموں کو قتل کی دفعہ کے تحت سزا سنائی جانی چاہیے۔ انھوں نے ایک ملزم کو بری کیے جانے پر اعتراض کیا اور کہا کہ اسلم خان نے عدالت میں ملزم کی شناخت کی تھی۔
جب کہ نول کشور کا کہنا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور وہ چاروں بھی بے قصور ہیں جن کو سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے مطابق ہم یہ نہیں کہتے کہ عدالت پر سیاسی دباؤ تھا۔ عدالت نے اپنی سمجھ کے مطابق فیصلہ سنایا ہے۔ ہمیں کچھ انصاف ملا ہے۔ عدالت پر ہمیں بھروسہ ہے اور امید ہے کہ ہائی کورٹ سے مزید انصاف ملے گا۔
الور سے بی جے پی کے رکن پارلیمان بالک ناتھ نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ریاست کی کانگریس حکومت کی مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کے تحت سنایا گیا ہے۔
جب کہ کانگریس کے ترجمان آر سی چودھری نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے پاس مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے کے علاوہ اور کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات
انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014 کے بعد سیکڑوں افراد کو مبینہ گائے محافظوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تازہ واقعہ رواں سال کے فروری میں ہریانہ کے بھوانی میں پیش آیا تھا جب ناصر اور جنید نامی دو افراد کو ہجوم نے زندہ جلا کر ہلاک کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ستمبر 2015 میں اترپردیش کے دادری میں محمد اخلاق کو، یکم اپریل 2017 کو الور میں مویشی تاجر پہلو خاں کو، جون 2017 میں عید کے موقع پر کم عمر حافظ جنید کو، جون 2017 میں جھارکھنڈ میں علیم الدین انصاری کو، جولائی 2018 میں اکبر خان کو او رجون 2019 میں تبریز انصاری کو ہجوم نے تشدد کرکے ہلاک کر دیاتھا۔ جب کہ ان واقعات میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔
حکومت کے پاس گائے کے تحفظ کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعات کے اعداد و شمار نہیں ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے دسمبر 2021 اور مارچ 2022 میں پارلیمنٹ میں سوالوں کے جواب میں کہا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو الگ سے ماب لنچنگ کے اعداد و شمار جمع نہیں کرتا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے متعدد بیانات اور انٹرویوز میں گائے کے تحفظ کے نام پر بے قصوروں کی ہلاکت کی مذمت کی اور ان جرائم میں ملوث افراد کو غیر سماجی عناصر قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی پر زور دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے جولائی 2018 میں ماب لنچنگ کے واقعات کی مذمت کی تھی اور پارلیمنٹ سے کہا تھا کہ وہ ایسے جرائم میں سخت سزا دینے کا قانون وضع کرے۔ لیکن تاحال ایسا کوئی قانون نہیں بن سکا ہے۔